ناقابل شکست کشمیر اور فلسطین

ایک ناقابل شکست قوم جو فلسطین کے عرض مقدس پر آباد ہے، اور ایک قوم جو کشمیر کے خوبصورت وادیوں میں آباد ہے، دونوں اقوام نے جس جاں فشانی سے اپنے اپنے ملکوں کے لئے قربانیاں دی ہے ایسی کونسی تاریخ ہوگی، ایسی کونسی کتابیں ہونگی جس میں انہیں بہادری سے منسوب نا کیا گیا ہو۔ فلسطین پر اسرائیلی بربریت، وحشیانہ تشدد، استحصال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہر انسان واقف ہے، ایساں کونسا ظلم دنیا میں باقی رہ گیا ہے جو مظلوم فلسطینیوں پر نہیں کیا گیا ہو۔ اس وقت فطری طور پر ہر انسان فلسطین پر ظلم زیادتیوں سے غم میں نڈھال ہے۔ بالکل ایسے ہی بھارتی مظالم سے کون ناآشنا ہوگا جنہوں ہمیشہ سے مظلوم کشمیریوں کو تلوار کی دھار پر پِرویا ہوا ہے۔ جنگی جنون کے خواہشمند بھارت نے مظلوم اور نہتے کشمیریوں کو کبھی گولیوں سے تو کبھی توپوں کے بارود سے لہو لوہان کرتے چلے ارہے ہے۔ جس پر عالمی قوتیں بشمول اقوام متحدہ کے سب دیکھتے ہوئے، سنتے اور محسوس کرتے ہوئے مجرمانہ خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر بے بسی کا اظہار کرتے چلے ارہے ہے۔ کہنے کو تو کہہ بھی جاتے ہے، کبھی کبھار دل پر پتھر رکھ کر مذمت بھی کرتے ہے مگر مجال ہے کہ دنیائی طاقتیں اپنی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کو انکی حق خودارادیت فراہم کرے۔ 27اکتوبر 1947 کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتارکر غیر قانونی قبضہ کرلیا جو تا حال قائم ہے۔ اُس دن کے بعد سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایسا دور شروع ہوا کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے ہی یکسر محروم کردیا گیا۔ ان محرومیوں کو پچھلے 27 اکتوبر تک 76 سال مکمل تو ہوگئے مگر مظلوم کشمیریوں کی آہ و زاریاں کسی کو بھانپ نہ سکی۔

قارئین کرام 1947 کے 27 اکتوبر سے لیکر آج تک ہر سال اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے کشمیری عوام پوری پر باور کرواتے ارہے ہے کہ ہماری مغلوبیت کے 76 سال تو پورے ہوگئے مگر اے دنیا والوں تمہارے وعدے وفا نا ہوسکے کہ جس پر اپنے آپ کو بھری ذمہ قرار دے کر دنیا کی انکھوں میں دھول جھونکتے ہو۔ کیا آزادی کا حق صرف اور صرف ان قوموں کو حاصل ہے جو اپنے وجود میں دوسروں کے لئے محض تباہی کے سبب بنتے ہو یا پھر دوسروں کی تباہی پر تماشا دیکھنے کی حد تک محدود ہو؟ کیا بھارتی مظالم کے جس پر اقوام متحدہ خود بھی کہیں مرتبہ اعتراف کر چکا ہے ہے کہ بھارت مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرتکب ہورہا ہے؟ اس پر خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر تماشائی بننا ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟

مقبوضہ کشمیر میں کل انسانی آبادی ایک کروڑ پچیس لاکھ اڑتالیس ہزار نو سو پچیس ہے جس کے لئے غاصب بھارت نے 9 لاکھ فوجی کشمیر میں اتار رکھے ہے۔ 1947 سے لیکر آج تک ہزاروں کی تعداد میں بزرگ، جوان، مرد و عورت سمیت بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اور آج تک یہ جذبہ روز اول سے تر و تازہ ہونے کے ساتھ ساتھ سورج کی طرح اقوام عالم پر عیاں ہے۔ مظلوم کشمیریوں کے گھر بار، مال و اسباب یہاں تک کہ ارٹیکل 370 اور دفع 35 کے تحت جو مراعات انہیں حاصل تھی انہیں بھی ختم کر دیا گیا۔ مظلوم کشمیریوں پر بھارتی قبضے کے تحت وہاں کا نقشہ بد دیا گیا یہاں تک کہ بھارت نوآبادیاتی منصوبے کے تحت کشمیریوں کی حسب و نسب بھی تبدیل کرنے کے درپے ہے مگر مملکت پاکستان نے اپنی آزادی سے لیکر آج تک کشمیریوں کو ہر محاذ پر اپنی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور اقوام عالم پر بھارتی ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے باور کراکر انکے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک پرعزم جدودجہد کی ہے اور یہ جدوجہد جاری رہیگی۔

یہ جدوجہد قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات کے تحت پروان چڑھتی رہیے گی جس کے لئے قائد نے کہا تھا کہ “کشمیر پاکستان کی شہرگ ہے”۔ ان کا مؤقف کشمیر کے حوالے سے بالکل واضح اور غیر مبہم تھا۔ قائداعظم مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی منشاء کے مطابق چاہتے تھے۔اِس میں کوئی دو آراء نہیں کہ کشمیریوں کے دل1947سے پہلے اور بعدمیں بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتے تھے اور آج بھی دھڑکتے ہیں۔ لیکن تقسیم کے وقت ڈوگرہ حکمرانوں، کا نگریسی رہنمائوں اور سب سے بڑھ کر برطانوی وائسرائے کی ملی بھگت کی وجہ سے جموں و کشمیر آج بھارتی افواج کے غاصبانہ قبضے میں ہے۔ اس کے باوجود کہ 1948 میں بھارت کے اس وقت کے وزیرِاعظم خود مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گئے جہاں کثرتِ رائے سے قرار داد منظور کی گئی جس کے مطابق کشمیری عوام کو استصوابِ رائے سے اس مسئلے کو حل کرنے کا حق دیاگیا، بھارت کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کو چنداں اہمیت نہیں دی گئی۔ وطنِ عزیز پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مؤقف ہمیشہ اصولی اور قانونی رہا ہے اور اُس نے ہمیشہ کشمیری عوام کے حق کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین مسئلہ کشمیر پر1948، 1965،1971کی تین بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں، جو کہ کشمیریوں کے لئے پاکستان کا یہ اصولی جنگ دلیل ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔

27 اکتوبر 2023 کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ منایا گیا، جس میں ملک کے طول و ارض سے ہزاروں کی تعداد نے ریلیوں، سیمناروں اور احتجاج کی شکل میں شرکت کرتے ہوئے اپنے کشمیری بہن بھایئوں کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کیا۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان سے لیکر گلگت بلتستان تک ملک پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے گونج اٹھا۔ میں صرف یہاں پر اپنے صوبے بلوچستان کا ذکر کرونگا جہاں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ، پشتون اور دیگر اقوام کے غیور عوام نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ مجموعی طور پر 24 ہزار سے زائد ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے ریلیوں، سپیچز، اور سیمناروں کے توسط سے شرکت کی۔ یہ وہی بلوچستان ہے جہاں بھارت نے ہمیشہ سے مداخلت کر کے شدت پسندی اور تخریب کاریوں کو ہوا دی۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت کلبھوشن یادو کو رنگے ہاتھوں پکڑنا ہے۔ مگر بلوچستان کی عوام ایک غیرت مند عوام ہے جنہوں نے ہمیشہ ملک پاکستان کے لئے اپنا تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنی ناقابل تسخیر وفاداری جاری رکھی ہے اور یہ وفاداری کشمیر اور فلسطین کی آزادی تک اور اسکے بعد بھی جاری رہیں گی۔ انشاء اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں