عطا الحق قاسمی

میرادل اداس ہے!

بہت دنوں سے دل اداس ہے اور اس اداسی کی سمجھ نہیں آرہی، میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس نے جواب دیا میں تمہیں بعد میں اس کی وجہ بتائوں گا، پہلے تو یہ بتائو کہ میں کیوں آج کل اداس رہتا ہوں؟ میں نے اس مایوس شخص سے مایوس ہو کر ایک اور دوست کے سامنے یہی سوال رکھا، اس نے اپنی بساط کے مطابق جواب دیا’’ شاید اس لئے کہ تم بوڑھے ہو رہے ہو اور تمہیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ آج گئے کہ کل گئے‘‘اس کے بوڑھا قرار دینےسے میں مزید مایوس ہوگیا۔ ایک اور دوست کا جواب تھا کہ اداسی ایک خوبصورت چیز ہے، ہر وقت ہُو، ہا کرنا شرفا کا وطیرہ نہیں۔ ایک دوست نے میرے سوال کے جواب میں میرا ہی شعر پڑھ دیا۔
شام ہوتے ہی عطاؔ کیوں ڈوبنے لگتا ہے دل
کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے اور ناگہاں ہونے کو ہے
اور بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ بس یہی خوف دامن گیر رہتا ہے کہ آج کا دن تو گزر گیا ، کل کا کیسے گزرے گا، مجھے اس دفعہ منیر نیازی کی ایک پنجابی نظم یاد آگئی۔
سورج چڑھیا پچھم توں تے پورب آن کھلویا
اج دا دن وی ایوئیں لنگیا کوئی وی کم نہ ہویا
ناں ملیا میں خلقت نوں، نا ںیاد خدا نوں کیتا
ناں میں پڑھی نماز تے ناں میں جام شراب دا پیتا
خوشی نہ غم کوئی کول نہ آیا نا ہسیا ناں رویا
آج دا دن وی ایوئیں لنگیا کوئی وی کم نہ ہویا
(سورج مشرق سے طلوع ہوا اور مغرب میں ڈوب گیا، آج کا دن بھی بس ایسے ہی گزر گیا، کوئی کام نہ ہو سکا، نہ میں خلق خدا سے مل سکا اور نہ خدا کو یاد کر سکا، میں نے نماز بھی نہیں پڑھی اور شراب بھی نہیں پی، خوشی اور غم دونوں مجھے نصیب نہیں ہوئے اور یوں میں نہ ہنس سکا اور نہ رو سکا)۔
اللہ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے کہ مجھے اب ناصر کاظمی یاد آگیا ہے۔؎
ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
یوں مجھے لگا کہ اداسی تخلیق کا منبع بھی ہے، ملک قوم بلکہ انسانیت کی زبوں حالی پر اداس ہونے والے لوگ صرف اداس نہیں ہوتے وہ اس کا مداوا کرنے کی کوشش میں بھی مگن رہتے ہیں، یہ اداسی کبھی کارل مارکس اور کبھی گوتم بدھ کو جنم دیتی ہے، کبھی اندھیروں کو روشنی میں بدلتی ہے اور کبھی فاصلوں کو کم کر دیتی ہے، کبھی غلاموں کا خون گرم کرنے کی بات کرتی ہے اور کبھی ان کھیتوں کو آگ لگانے کا کہتی ہے جس سے کسان کو روزی نہ میسر ہو۔ آج تک دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں ان کے پیچھے اجتماعی اداسی کارفرما ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اداسیوں کو جنم دینے والا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اداسی تیشۂ فرہاد ہوتی ہے اور سنگلاخ پہاڑوں میں سے نہر نکال لیتی ہے۔
مگر دوسری طرف وہ لوگ بھی ہیں جو اداسی کو خوشی میں بدلنے کی بجائے اس اداسی میں مایوسی بھی شامل کردیتے ہیں اور جو مریض اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر موت سے جنگ لڑ رہا ہوتا ہے وہ مایوس ہو کر ہتھیار ڈال دیتا ہے، ہمارا پاکستان بھی ان دنوں مایوسی کا گڑھ بنتا جا رہا ہے، لوگ سخت پریشان ہیں، ایک طرف وہ طبقہ ہے جس کی دسترس میں دنیا کی ہر نعمت ہے، اور دوسرا وہ جو نانِ جویںکیلئے بھی ترستا ہے، ایک طرف ہمارے علما کرام ہیں جو عوام کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ اگر تمہیں اس دنیا میں کچھ نہیں مل رہا تو مرنے کے بعد تمہارے لئے باغات ہوں گے، دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی، تمہیں ستر خوریں ملیں گی، لہٰذا غربت کیلئے کسی کو مورد الزام نہ ٹھہرائو، بس اللہ کی رضا پر راضی رہو۔ ہماری حکومتیں ہیں جو اربوں کھربوں روپے اشرافیہ کی سہولتوں پر صرف کرتی ہیں اور جو نانِ جویں کیلئے ترستے ہیں انہیں وعدۂ فردا پر ٹال دیا جاتا ہے، جب کبھی آٹھ دس سال بعد الیکشن کے دن آتے ہیں سیاست دانوں کو عوام کی بے کسی اور بے بسی یاد آنے لگتی ہے۔یہ آٹھ دس کروڑ کی گاڑی میں سے اتر کر جھونپڑیوں میں چلے جاتے ہیں اور ان میلے کچیلے لوگوں کے ساتھ معانقہ کرتے ہیں، ان کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں اور تصویریں بناتے ہیں، اس شام گھر جا کر ڈیٹول سے اپنے ہاتھ کے وہ جراثیم ختم کرتے ہیں جو غلاظت کے ماحول میں رہنے والی اس مخلوق سے ہاتھ ملاتے ہوئے ممکنہ طور پر ان کی طرف منتقل ہوئے ہوں گے۔
یہ قصہ بہت طویل ہے، میں کہتا ہوں اسے مزید طویل کرنے کی بجائے معاشرے کے تخلیقی لوگ میدان میں آئیں اور ان تمام جونکوں کے خاتمہ کا لائحہ عمل تجویز کریں جو ایک عرصے سےغریبوں کا خون چوسنے میں لگی ہوئی ہیں ،کبھی خدا اور کبھی اسی خلقِ خدا کے حوالے سے جس کی زندگیاں انہو ںنے حرام کی ہوئی ہیں، جو سڑک کے کسی گٹر کا ڈھکن لگاتے ہوئے اس ’’فلاحی کام‘‘ کی تصویریں اخبارات میں شائع کراتے ہیں۔ مجھے یقین ہے مایوسی اور اداسی کے یہ دن ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں، قوموں کی زندگی میں یہ دن آیا ہی کرتے ہیں اور گزر بھی جاتے ہیں، بس مایوسی کی بجائے امید اور امید کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے قوم کے طبقات کو سرگرم ہونا ہوگا۔

میرادل اداس ہے!” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں