قومی مقاصد، اہداف اور ترجیحات کا ازسرنو تعین

کوئی لیڈر یا سربراہِ مملکت محض اس بُنیاد پر کامیاب نہیں ہوسکتا کہ وہ صوم وصلوٰۃ کا پابند ہے یا اس کا ظاہری حُلیہ اور طور اطوار شریعت کے عین مُطابق ہیں یا وہ تہجُد گُزار ہے اور لمبی لمبی نمازیں پڑھتا ہے یا وہ ایماندار ہے اور بظاہر حرام خُوری سے اجتناب کرتا ہے یا وہ رحمدل ہے اور اس کے دل میں رعایا کی فکر ہے یا اس بُنیاد پر کہ وہ خوش گُفتار ہے اور اچھی اچھی باتیں کرتا ہے یا وہ خوش شکل ہے یا یہ کہ اس کی باتوں یا شخصیت کے سحر میں مُبتلا ہوکر لوگوں نے اس سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ بلکہ وہ اگر کامیاب ہوتا ہے تو ہمہ گیر بُنیادوں پر تشکیل دیئے گئے اپنے پروگرام اور اس پروگرام کو عملی جامہ پہنا کر کامیاب ہوتا ہے۔

اسی طرح کسی قوم یا معاشرہ کی تقدیر محض اس بُنیاد پر نہیں بدل سکتی کہ وہ لوگ اجتماعی طور پر اللہ رب العزت کو اپنا خالق و مالک مانتے ہیں یا نبی آخرالزمان حضرت محمد مُصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہِ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں یا وہ لوگ صوم وصلوٰۃ کے پابند ہیں۔ یا وہ لوگ نیک نیت ہیں اور نیک نیتی سے اپنی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں، بلکہ قوم یا معاشرہ اگر کامیاب ہوتا ہے یا اس کی تقدیر بدلتی ہے تو عملی اقدامات کرنے سے ہوتی ہے، ہمہ گیر بُنیادوں پر متعین کردہ قومی مقاصد، اہداف اور ترجیحات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے سے ہوتی ہے۔ عام ڈگر سے ہٹ کر آؤٹ آف دی باکس اقدامات کرنے سے ہوتی ہے۔

کامیابی خواہ انفرادی نوعیت کی ہو یا اجتماعی نوعیت کی ہو، وہ خود بولتی ہے اور خود بخود تاریخ کا حصہ بنتی ہے۔ جبکہ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ قومی مقاصد، اہداف اور ترجیحات کا سرے سے نہ تو کسی کو ادراک ہے اور نہ کسی کو فکر۔ ہم پر جس طرح کے کوتاہ قد قائدین مسلط ہیں ان کی سوچ ان کی اپنی ذات کے گرد گھومتی ہے۔ ان لوگوں کے لئے ان کی اپنی ذات ہی کُل کائنات کا مرکز ہے۔ ہر بونا خود کو مُلک و قوم کے ناگُزیر سمجھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہر کوئی قیادت کے بُنیادی خواص سے محروم ہے۔

لہٰذہ ملک و قوم کو درپیش ہمہ گیر مسائل کا مُستقل حل نکالنے کے لئے نہ صرف یہ کہ ہمیں من حیث القوم اپنے تمام مقاصِد، اہداف اور ترجیہات کا ازسرِنو تعین کرنا ہوگا بلکہ اِن مقاصِد کے حُصول کے لئے ٹھوس اور مضبوظ بُنیادوں پر قائم قلیل مُدتی اورکثیر مُدتی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ بعد ازاں ان منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے، اور اپنے مقاصِد کے حُصول کے لئے ہمیں اپنے سر دھڑ کی بازی لگانا ھوگی۔

قومی مقاصد، اہداف اور ترجیحات کے عدم تعین کا یہ نُقصان ہوتا ہے کہ اس کے بغیر قوم کو نہ اپنی سمت کا ادراک ہو پاتا ہے نہ معاملات کا کہ کس سمت چلنا ہے، کب چلنا ہے، کب دوڑنا ہے، کب بیٹھنا ہے، کب لڑنا ہے، کس سے لڑنا ہے، کیوں لڑنا ہے، کب تک لڑنا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہم ناکام قوم کے ناکام لوگ ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اللہ رب العزت کی عطا کی ہوئی بہت سی نعمتوں کی قدر نہیں کرسکے، ہم اپنا مُلک نہیں سنبھال سکے۔ ہم اس کو مُستحکم بُنیادوں پر استوار کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ہم من حیث القوم بہت سی کامیابیوں کو نہیں سنبھال سکے اور انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کامیابیوں کے ثمرات سے مُستفید نہیں ہوسکے۔ ہر کامیابی کے بعد ہم الجھ جاتے ہیں یا الجھا دیئے جاتے ہیں اور وہ ثمرات جن سے اجتماعی حیثیت میں پوری قوم مستفید ہوتی وہ ثمرات چند ایک افراد یا خاندان ہڑپ کرجاتے ہیں جو کہ ایک قومی المیہ ہے۔

اس کی وضاحت اس طرح سے کی جاسکتی ہے کہ ہم من حیث القوم ہر معرکہ اور ہر میدان میں ہمیشہ جیت اور فتح مندی کی لگن کے ساتھ انتہائی بہادری اور عقلمندی کے ساتھ لڑتے ہیں لیکن جب معاملات منطقی انجام اور فتح مندی کے قریب ہوتے ہیں تو وہاں ہم میں موجود کچھ جغادری اس طرح کےعظیم قومی معرکوں اور فتوحات کو اجتماعی ناکامی اور قومی شرمندگی میں بدل دیتے ہیں اور ملک وقوم کو اس طرح کی فتوحات سے محروم کردیا جاتا ہے۔ چونکہ ہم ہر معاملے، معرکے یا میدان میں قومی مقاصد، اہداف اور ترجیحات کا تعین کئے بغیر واقعات یا دوسروں کی کسی حرکت کے ردِ عمل میں کُودتے ہیں اور انتہائی جُرات اور بہادری سے میدان سر کرلیتے ہیں۔ لیکن عین فتح مندی کے وقت ہم بوکھلا جاتے ہیں کہ آگے کیا کرنا ہے یا معاملات پر اپنی گرفت کس طرح مضبوط رکھنی ہے یا دُنیا سے اپنی اس کامیابی کو کس طرح منوانا ہے یا اس کامیابی کو اپنے مفادات کے حُصول کے لئے کس طرح استعمال کرنا ہے۔ عین اس لمحے جب اس کامیابی کی بُنیاد پر دُنیا سے معاملات طے کرنے کا وقت آتا ہے عین اسی وقت ہمارے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور ہم استقامت کا مُظاہرہ کرنے کی بجائے غیروں اور اپنوں میں موجود آستین کو سانپوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور ہم اپنی عظیم ترین کامیابیوں کے ثمرات سمیٹنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

اگر ہم اپنی قومی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ ہم لوگوں نے بطور قوم ہر معاملے اور معرکہ میں انتہائی استقامت، بہادری اور جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور الحمداللہ ہم نے ہر معاملے اور معرکے میں اقوام عالم سے اپنی حیثیت، صلاحیت اور اہمیت منوائی ہے لیکن یہ انتہائی افسوس کا مقام اور فکرمندی کی بات ہے کہ محض چند ایک افراد کی وجہ سے عین موقع پر ہماری ہر فتح مندی قومی شکست اور قومی شرمندگی میں بدل جاتی ہے۔ ہم نے افغانستان کی سرزمیں پر سابقہ سوویت یونین جیسی عظیم طاقت کو شکستِ عظیم سے دوچار کیا لیکن اس کے طفیل اگر ہمیں کچھ ملا تو افغان طوائف الملوکی، خانہ جنگی، کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر، افغان مہاجرین کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ، معاشرتی و اقتصادی تباہ حالی وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ہم نے چین اور مغربی دُنیا کے مابین پُل کا کردار ادا کیا لیکن ہم اس کے ثمرات نہیں سمیٹ سکے، ہم نے دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ اسٹیٹ کا کردار ادا کیا اور مغرب اور عرب دُنیا میں امن و امان کے لئے پاکستان کو کُشت و خون میں نہلادیا لیکن ہم دُنیا سے اپنی اہمیت نہیں منواسکے اور تو اور ہم نے افغانستان کی خاطر پاکستان کو تباہی و بربادی سے دوچار کردیا لیکن ہم افغان بھائیوں کے دلوں میں وہ مقام حاصل نہیں کرسکے جس کے ہم حقدار ہیں۔ یہ باتیں اس وقت تک ہوتی رہیں گی جب تک اچھے لوگ سیاست میں نہیں آتے اور ایک منظم قوت بن کر معاملات اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے اور ہم قومی مقاصد، اہداف اور ترجیحات کا ازسرنو تعین نہیں کرلیتے۔

خیر اندیش،

عزیز خان،
بانی و چیئر مین،
دی گریٹر پاکستان موؤمنٹ،
پیوستون مرکز برائے تزویراتی مطالعہ اور پالیسی سازی،
اسلام آباد، پاکستان.

2 تبصرے “قومی مقاصد، اہداف اور ترجیحات کا ازسرنو تعین

  1. You’re in reality a just right webmaster. This web site loading velocity is amazing. It sort of feels that you are doing any distinctive trick. In addition, the contents are masterpiece. you have done a magnificent task in this topic! Similar here: najtańszy sklep and also here: E-commerce

اپنا تبصرہ بھیجیں