tariqkhan tareen

پی ٹی ایم صوبہ بدر، قوم پرست دربدر

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں وہی چورن بیچا جاتا ہے جس کے سبب جمہور میں پذیرائی کا حصول ممکن ہو۔ پھر چاہے وہ چورن کیو نہ ریاست کے خلاف جانے یا پھر ریاست کو خدا خواستہ توڑنے پر ہی کیو نہ مرکوز ہو۔ ایسے حالات میں ریاست والد کا کردار ادا کرنے پر مجبور مشفیق بن جاتا ہے کہ جس میں بہت سے عوامل پر سوچا جاتا ہے۔ مگر جب ایسے چورن بیچنے والوں پر ریاست ہاتھ ڈالتی ہے تو بہانے بنا کہا جاتا ہے کہ ریاست نے ظلم کر ڈالا۔ درحقیقت یہ وہی لوگ ہوتے ہے کہ جس نے ایسے چورن بیچنے پر سیاست کرنی ہے اور ایسے طریقہ واردات سے عوام میں پذیرائی حاصل کر کے عوام سے ووٹ لیکر کر آسمبلی میں جا بیٹھتے ہے۔ پھر 5 سالوں تک اسی عوام کے پیسوں سے شاہانہ طرز زندگی گزارتے ہوئے عوام کی وہ درگت بنا ڈالتے ہے جس سے اللہ کی پناہ!

چمن میں اس وقت پرلت (دھرنے) پر وہ لوگ بیٹھے ہے جن کے پاس سمجھ و ادراک صرف لغویات کی تک محدود ہے۔ ان میں بہت سے عمر رسیدہ اشخاص بھی روازانہ کی بنیاد پر یا پھر تب موجود ہوتے ہیں جب کوئی اہم شخصیت اس پرلت میں پہنچ جاتا ہے۔ ان کے منہ سے بھی پالیسی لیول پر کوئی بات ابھی تک نہیں سنی۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے بزرگ اشخاص پرلت میں موجود جوانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے سمجھاتے کہ کسطرح سے ریاست کے ساتھ بیٹھ کر ان سے اپنی ترجیحات اور تجاویز منوائے جاتے ہے۔ مگر بد قسمتی سے ایسے شخصیات بھی کہنے میں ان نوجوانوں سے پیچھے نہیں بلکہ انسے آگے ہی آگے ہے۔ خیر مجھے تعجب تب ہوا جب لغویات کا یہ سلسلہ صرف ان پرلت (دھرنے) پر بیٹھے ہوئے لوگوں یا پھر ان عمر رسیدہ اشخاص کی حد تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ سلسلہ حافظ حمداللہ جو اس وقت پی ڈی ایم کے ترجمان ہے، اے این پی کے اصغر خان کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والوں نے بھی کوئی کسر نا چھوڑی۔ کسی نے بالواسطہ تو کسی نے بلا واسطہ ریاست کے خلاف ناقابل فہم الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنی اپنی تربیت کی خاص لاج رکھی۔ ایسے الفاظ سے واضح ہوتا یے کہ ان سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے مشران پرلت پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید انہیں پیچیدہ بنا گئے اور ریاست سے ٹکرانے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے چمن اور اس سے منسلکہ علاقے کے غیور نوجوانوں کو مزید مسائل سے دوچار کر کے رکھ دیا جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انے والے ادوار میں ان جوانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

نفرت انگیز تقاریر، ریاست مخالف پروپیگنڈے کم نہ تھے کہ پی ٹی ایم کے سربراہ بھی اس پرلت تک پہنچتے پہنچتے بالآخر پہنچ گئے۔ اور انہوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر ڈالی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ضلع چمن میں منظور پشتین کو پاسپورٹ جو کسی بھی ملک کے لئے سفری سیکیورٹی لوازمات ہوا کرتے ہے پر انکار کر رہا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں انکے لئے قابل قبول ہیں۔ افغان مہاجرین جنہیں ہماری ریاست نے 40 برسوں سے پناہ دی نہ صرف بلکی ان پناگزینوں کو عام پاکستانیوں کی طرح رہنے دیا، اب جب کہ افغانستان امن کی جانب گامزن ہے اور ریاست پاکستان نے اسی بنیاد پر فیصلہ دیا کہ تمام پناگزینوں کو واپس اپنے ابائی وطن عزت کے ساتھ بھیجا جائے تو اس پر بھی منظور پشتین کو بلوچستان میں یہ فیصلہ ناقابل قبول جبکہ خیبر پختونخوا میں قبول ہے۔ اس دہرے معیار کو عوام اچھی طرح سے جان چکی ہے۔ پچھلی مرتبہ بھی جب پی ٹی ایم کے سربراہ بلوچستان ائے تو یہاں کے امن و امان کو نقصان پہنچا اور جب اس مرتبہ ائے تو بھی امن و امان کی فضاء کر گرد الود کر دیا گیا۔ پچھلی مرتبہ جب منظور پشتین چمن ائے تو انہوں نے عام عوام کو ریاست کے خلاف اکسایا جس کے نتیجے میں تصادم ہوا اور 7 افراد جانبحق جب کہ سینکڑوں افراد جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے زخمی ہوئے۔ حکومتی ترجمان صوبائی نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے مطابق اس مرتبہ پھر جب یہ جناب پہنچے تو پرلت سے نفرت انگیز تقریر کر کے جب واپس جار ہے تھے تو لیویز ناکے پر موجود لیویز اہلکاروں نے جب انکی گاڑی کو بغرض سکیورٹی چیکنگ روکنا چاہا تو منظور پشتین کے محافظین نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے سبب ایک عورت اور بچہ سمیت 4 افراد زخمی ہوئے، جس کی بنیاد پر سکیورٹی اہلکاروں نے اپنی دفاع میں گاڑی کے ٹائر پر فائرنگ کرتے ہوئے گاڑی کے ٹائر کو بسٹ کیا، تاکہ ان فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار کیا جاسکے۔ اس اثناء میں منظور پشتین اپنے محافظوں سمیت بھاگ کر فرار ہوئے۔ اور بعد میں انہیں گرفتار کر کے صوبہ بدر کر دیا گیا۔ جہاں انہیں دیڑہ اسماعیل خان کے پولیس حوالے کر دیا گیا جبکہ وہاں سے اسلام آباد پولیس کے حوالے کردیا۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر اس وقت پورے بلوچستان سے ریاست مخالف پروپیگنڈہ کرنے والی مومنٹ پی ٹی ایم پر پابندی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جس پر موجودہ نگراں حکومت غور فکر کر رہی ہے۔ اور میری اطلاعات کے مطابق اس جماعت پر بلوچستان میں پابندی لگا دی جائیگی، نہ صرف بلکہ ملکی لیول پر بھی پابندی لگائی جاسکتی ہے۔

قارئین کرام بلوچستان کی روز اول سے بدقسمتی رہی ہے کہ یہ وہ زمین کا ٹکڑا ہے جنہیں ہمیشہ سے دروغ گوئی، منافرت اور پروپیگنڈوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ کبھی پشتونوں کی بے بسی تو کبھی بلوچوں کی بے بسی کو سیاسی جماعتوں نے حدف کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر سیاست کے بڑے میدانوں کو سجھایا ہے۔ ان بے بسیوں میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر پسماندگیاں شامل ہے۔ بلوچ قوم پرست سیاستدان لاپتہ افراد پر آج کل پھر سے سیاست کرنے لگے ہے۔ حالانکہ جب وہ پارلیمنٹ میں بیٹھے تھے تو انہوں نے لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئی قانون پاس نہیں کیا اور نا ہی اس وقت لاپتہ افراد کا کوئی نام لیوا تھا۔ یہ کیونکر ہوتا ہے کہ جب الیکشن کا وقت قریب اتا ہے تو ان سیاسی وڈیروں کو عوامی مسائل کا ادراک ہوجاتا ہے خصوصی طور پر لاپتہ افراد ہی ان کی ٹاپ پریوارٹی ہوا کرتی ہے؟ یہ بات قابل غور ہے کہ آج کل جس سیاسی قوم پرست رہنما نے لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھایا ہے انہی نے پچھلے ادوار میں پانچ ہزار لاپتہ افراد ہونے کا ڈھونگ رچایا، جس میں سے انہوں نے محض ایک ہزار لاپتہ افراد کی لسٹ لاپتہ افراد کمیشن کو جمع کروائی باقی چار ہزار افراد کی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ پچھلے اگست تک کی رپورٹ جنہیں لاپتہ افراد کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی جس میں 9893 توٹل کیسز درج ہوچکے ہے، جن میں سے 7616 کیسز کو نمٹائیں گئے ہے اور 2277 کیسز زیر التواء ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ریاست لاپتہ افراد کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے اور اسی لئے اس پر 75 فیصد کام مکمل پوچکا ہے۔ اور باقی پر بھی کام جاری ہے جس پر میری خواہش ہوگی کہ اللہ کرے جلد از جلد یہ مسلہ ختم ہو جائے۔ تاکہ حقائق کم اور بڑھتے ہوئے پروپیگنڈے کا تدارک کیا جاسکے۔

صوبہ بلوچستان میں ایک طرف پشتون قوم پرستوں کی پارٹی اور مفاداتی سیاست نے پروپیگنڈوں کی شکل میں ریاست کا نقصان کیا ہے تو دوسری طرف بلوچ قوم پرست جماعتیں ہے جنہوں ریاست کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ جس سے ملک میں نفرتوں کو پروان چڑھایا جارہا ہے، جس کا مطلب ہے کی دونوں اطراف سے بلوچستان کو یرغمال بناکر Devid & rule کی پالیسی اپنا کر عوام کو تقسیم در تقسیم کیا جارہا ہے، سالہا سال سے سیاسی جماعتیں جب بھی برسر اقتدار ائی ہے انہوں ان پسماندگیوں کو ختم کرنے کے لئے کونسے اقدامات اٹھائے؟ صرف پچھلے صوبائی حکومت کی اگر 5 سالہ بجٹ کا تخمینہ لگایا جائے تو کم و بیش 35 سو ارب روپے کی خطیر رقم اس صوبے کو ملا۔ حکومت کس کی تھی، حکومت میں کون کون سی پارٹیاں شامل رہی اور انہوں نے صوبے کی تقدیر بدلنے کے لئے کونسے انقلابی اقدامات اٹھائے یہ وہ سوال ہے جنہیں ہر ووٹر کو اپنے اپنے علاقوں کے نمائندگان سے پوچھنا چاہیے۔ اخر کب تک بلوچستان کے حالات کو بدلنے کے لئے وہی لوگ، وہی سیاسی پارٹیاں چنے جائنگے کہ جس نے ٹھس سے مس نہیں ہونا؟ میرا خیال ہے کہ جسطرح سے بلدیاتی الیکشنز میں آزاد امیدواروں کی تعداد تمام پارٹیوں سے زیادہ تھی یہ ایک بڑی تبدیلی کی ساتھ ساتھ ایک نوید ہے بلوچستان کے لئے کہ جنرل الیکشنز میں بھی بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی اگر تو الیکشن 8 فروری کو ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ 8 فروری کو الیکشنز ہونگے بھی کہ نہیں اس کی ایک مختصر وضاحت میں نے اپنے پچھلے کالم “سپہ سالار کے عزم مصمم کا ایک سال” میں دی ہے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆

اپنا تبصرہ بھیجیں