عمران۔زرداری اتحاد ؟

تجزیہ ہمیشہ کہتا ہے کہ کوئی اطلاع ملنے یا کوئی معتبر ذرائع کی تلاش سے قبل مجھے بروئے کار لایا جائے۔ تجزیہ کی اس خواہش کی دو اہم وجوہات ہوتی ہیں: 1- مکالمہ کی طرح سوال اٹھانا۔ 2 – رائے عامہ ہموار کرنا یا کسوٹی کو سرِ بازار رکھنا۔ تیسری صورت میں جو فائدہ تجزیہ کی طرف قدم بڑھانے پر مجبور ہوتا ہے وہ یہ کہ بسا اوقات معتبر یا اطلاع بذریعہ تجزیہ ہاتھ بھی لگ جایا کرتے ہیں۔ تجزیہ ہو یا مکالمہ اس کی افادیت اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک تجزیہ یا مکالمہ کا پیش منظر آئین فہمی ، تاریخی حقائق اور غیر جانبدارانہ پس منظر نہ رکھتا ہو !
درج بالا سطور عمومی معاملات سے ہم آہنگ ہیں جو خصوصی معاملہ ہے وہ یہ کہ موجودہ سیاسی کیفیت اور درپیش سیاسی و آئینی چیلنجز کسی نوابزادہ نصر اللہ خان سی مسیحائی کی تلاش میں ہیں۔ ممکن ہے تاریخ کے اوراق میں نوابزادہ مرحوم کے متعلق بھی کہیں کسی آمر سے دھوکا کھا جانے کے بھی شواہد ہوں لیکن نوابزادہ مرحوم مجموعی طور ’ہاتھوں میں ہاتھ دو جمہوریت و مفاہمت کا ساتھ دو‘ والی پالیسی کے شہسوار تھے۔ حساس اورپروقار دور اندیش نوابزادہ نصراللہ خان کی سیاست ذوالفقار علی بھٹو کی طرح مالی کرپشن سے آلودہ بہرحال نہ تھی۔ آج جو سیاسی و آئینی و انتخابی نہج ہے اس پر حامد ناصر چٹھہ اور جاوید ہاشمی بھی یاد آرہے ہیں مگر چٹھہ کی خاموشی اور جاوید ہاشمی کے ضرورت سے زیادہ بولنے کے سبب قوم ان کے نوابزادہ طرز کے کردار سے قاصر ہے۔ آفتاب شیر پاؤ بھی ماضی میں حد درجہ جذباتی اور اسفند یار ولی صاف گوئی کے سبب قومی مصالحت کی شاہراہ ہموار نہ کر سکے۔ نظریں خورشید شاہ اور حاصل بزنجو و اختر جان مینگل کی طرف بھی گئیں مگر ان کے بار ہا کسی نہ کسی مصلحت کے تابع ہونے کے سبب مایوس لَوٹ آئیں۔
فقیر نے ایک بات بغور دیکھی کہ عمران خان 1994 سے 2009 تک زوال کی سیاست میں تھے مصلحت اور مفاہمت کی بات کرتےتھے، اکثر سیاست کے مقام اعراف والے قصے کہانیاں اور حقائق بھی بیان کرتے۔ (ہمارے ایک دوست کے مطابق اُس وقت سیاست میں ایم بی بی ایس کر رہے تھے) لیکن 2010 سے تاحال وہ آمروں کی سی نفرت اور آمروں ہی سی زبان سیاست دانوں کیلئے استعمال کر رہے تھے، کردار اور اقدامات سے زیادہ عمران خان کی زبان نے ان سے اقتدار چھینا۔ یعنی، بقول کارٹونسٹ جاوید اقبال عمران خان نے ایم بی بی ایس تو کرلیا مگر حکومت میں ہاؤس جاب کئے بغیر آگئے،جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
بعد از پس دیوار زنداں اور عزت مآب ثاقب نثار اور قبلہ عمر عطا بندیال صاحبان کی رخصتیوں کے بعد کے غور و فکر نے کپتان کو سیاسی ٹیم اور ٹیم ورک کے اسرار و رموز یقیناً سکھا دئیے ہوں گے۔ مگر متعدد آپریشنز کے بعد ہاؤس جاب کر لینے کو بھی فقیر دیر آید درست آید کے زمرے میں لیتا ہے۔ لیکن بابوں کے مقابلہ میں کم سن بلاول بھٹو زرداری کے منہ سے مفاہمت کی باتیں، کوئی بھی جیتے کہہ کر بروقت الیکشن کا مطالبہ، اور سخت مخالف عمران خان کی تحریک انصاف کیلئے بھی برابر ہموار انتخابی راستہ کی اپیل اور جدوجہد کے سبب ،بلاول نے خود کو کم سن سے بالغ نظر ثابت کر دیا ہے، اور کوئی مانے نہ مانے نیم مردہ تحریک انصاف کو آکسیجن ملی ہے!
ان سطور کے صریر خامہ میں بہرحال اس زیادتی کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جو 2017 میں میاں نوازشریف کو وزارتِ عظمیٰ سے اقامہ کے سبب سبکدوش کیا گیا’ 2002 اور 2008 میں الیکشن سے دور رکھا گیا، انہی باتوں کے سبب آخر میثاقِ جمہوریت نے جنم لیا جس کے باعث تاحال جمہوریت کا سورج کئی گرہنوں کے حملے کے باوجود طلوع ہے۔یقیناً شہباز گِل کے شور و غل، فردوس عاشق اعوان اور شیخ رشید کے مخالفین پر آتشیں حملوں اور حماد اظہر و زلفی بخاری کی عاقبت نا اندیشیوں کے بعد خان نے سوچا تو ہوگا کہ گڑ بڑ ہمی سے ہوئی۔ اور خان کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی اس پولیٹیکل سائنس کی بھی سمجھ آگئی ہوگی کہ اسمبلی میں حزبِ اختلاف ہونا کم مضبوطی نہیں۔ بقول مجروح سلطانپوری’’دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار / رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ‘‘
چلتے چلتے یہ تذکرہ بھی ہو جائے آج کل کچھ یار لوگ آصف زرداری کی میثاقِ معیشت والی بات یا خاموشی سے اندازہ لگانے لگے ہیں کہ بلاول بھٹو کا سیاسی جہاں اور ہے اور زرداری کا جہاں اور۔ ان دانشمندوں کی آگہی پھر ان سے وہی دھوکا کر رہی ہے، جیسے یہ کہتے رہے کہ نواز کا جہاں اور ہے اور شہباز کا جہاں اور ۔ مگر سب اندازے ٹامک ٹوئیاں نکلے! اور یہ بھی کہ لمبی چھوڑنے اور’’گہری‘‘ سوچنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں زرداری کا سیاسی و جمہوری فکر دراصل نواز عروج مخالف بیانیہ ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ زرداری صاحب نے ابھی تک کسی نواز مخالف بیانیہ کو ہوا نہیں دی ۔ دوسری بات یہ کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف مکالمہ کا کبھی شٹر ڈاؤن نہیں کریں گے کیونکہ مکالمہ ہی جمہوریت کی روح ہوا کرتا ہے!

فرض کیجئے آصف زرداری اگر تحریک انصاف کی بات کریں یا خان کی ، یہ کوئی سیاسی شرک نہیں جمہوری فرض ہے۔ کیا عدالت عالیہ نے سوِلین کیسوں کی آرمی عدالتوں میں شنید پر قدغن نہیں لگائی؟ تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا لازم ہے کیا؟ اور کیا جمہوریت کی تقویت کیلئے کسی گفت و شنید کو آئین شکنی یا شجر ممنوعہ قرار دینا درست ہوگا ؟ اے اہلِ علم ! نہ جانے الیکشن کا کیا ہونے والا ہے، نہیں معلوم وزارتِ عظمیٰ کے حصول میں کتنی رکاوٹیںہوں، آگے صدر پاکستان اور چیئرمین سینٹ پھر وزرائے اعلیٰ کے الیکشن حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈری کے کئی فلسفے اور کئی گورکھ دھندے ہیں۔
تسلی رکھئے، کوئی عمران۔زرداری انتخابی اتحاد وجود نہیں پا رہا تاہم کسی کی اُکھڑی سانسوں کو آکسیجن مل جائے تو سانس بحالی ہو سکتی ہے پھر کوئی اور قانون رہے نہ رہے نیوٹن کا تیسرا قانون ضرور رہتا ہے، کوئی قوت اگر بازو کسی کا فتح نگری میں جا مروڑے گی ، تو کچھ تو ہوگا:وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو، فراہمی آکسیجن یا انتخابی اتحاد ہو ۔ فقیر کو تو لگتا ہے سب سیاسی چالیں اہل طاقت کی چال ہی پر منحصر ہیں!

عمران۔زرداری اتحاد ؟” ایک تبصرہ

  1. I see You’re actually a good webmaster. The website loading pace is amazing. It kind of feels that you are doing any unique trick. Furthermore, the contents are masterpiece. you have performed a excellent process on this matter! Similar here: najlepszy sklep and also here: Dobry sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں