مظہر برلاس

چلنا ہے تو ایران کو چلئے

تہران میں ہمیں ایک نمائش دکھانے کیلئے لے جایا گیا، ایک بڑے ہال کے تین فلورز پر ایرانی مصنوعات جبکہ چوتھی منزل پر فوڈ کورٹ بنا ہوا تھا، ایران کی وسیع  عریض زمین پر ابھی کاشتکاری نہیں کی جاتی مگر پھر بھی ایرانیوں نے جدید ترین زرعی آلات بنا رکھے ہیں، ان آلات کی مدد سے زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے، میں نے اپنے ملک میں اتنے جدید زرعی آلات نہیں دیکھے جو وہاں تھے، خاص طور پر فصلوں کو بونے، کاٹنے اور انہیں پانی دینے کیلئے انتہائی جدید مشینری رکھی گئی تھی، طب کے شعبے میں ایرانی مصنوعات دیکھنے کا اتفاق ہوا، یہاں مشرقی اور مغربی طریقہ علاج کا حسین امتزاج نظر آیا، ہسپتالوں کی جدید مشینری نظر آئی۔ سڑکیں، عمارتیں اور ٹریفک سگنلز بنانے کے حوالے سے اچھی خاصی بہتر چیزیں نظر آئیں۔ بریفنگ دینے والی خاتون نے ہمیں کھڑکیوں اور دروازوں میں استعمال ہونے والے شیشوں کے نمونے دکھائے، ایک شیشہ دھوپ میں گرم جبکہ دوسرا بالکل ٹھنڈا رہتا ہے، ایسے شیشے بھی دکھائے گئے کہ اندر روشنی کے باوجود باہر سے کچھ نظر نہ آئے جبکہ اندر سے سب کچھ دکھائی دے، شیشوں کے کچھ نمونے لمحوں میں رنگ بدلنے کی صلاحیت کے حامل تھے، الیکٹرونکس کے بہت سے نمونے دیکھنے کو ملے، ایرانی، چینیوں کی طرح بچوں کیلئے کھلونے مہارت سے تیار کرتے ہیں۔ ایران کے شمال میں موسم سرد ہونے کے سبب وہاں کئی خوبصورت مقامات ہیں، برفباری تو خیر تہران میں بھی ہوتی ہے مگر مشہد، تہران سے زیادہ سرد ہے جبکہ بندر عباس اور چاہ بہار گرم علاقے ہیں، آپ شیراز جائیں جہاں سعدی کی یادیں بولتی ہیں اور کرمان شاہ میں پرانے بادشاہوں کی داستانیں نظر آتی ہیں، تبریز کا اپنا حسن ہے، خراسان سے منسوب تینوں صوبے قابل دید ہیں، نیشاپور کا فیروزہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ایران جا کر اصفہان نہ جائیں تو پھر آپ نے کچھ بھی نہیں دیکھا، اصفہان سے متعلق ساتویں صدی عیسوی میں فرانسیسی شاعر نے کہا تھا ’’اصفہان نصف جہان‘‘۔ اصفہان صدیوں پہلے دنیا کا بڑا شہر تھا مگر حیرت ہے کہ اس کی آبادی آج بھی سولہ سترہ لاکھ ہے، ایران کے وسط میں واقع اصفہان کا میدان ِنقش جہاں، یونیسکو کے تحت عالمی ورثے کی حیثیت رکھتا ہے، یہاں گیارہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونے بنے، اس شہر میں آسمان سے باتیں کرتے ہوئے اشجار قطار در قطار کھڑے ہیں، اصفہان، عمارات، محلات، باغات، میناروں اور مساجد کا شہر ہے۔ اصفہان ایران کا تیسرا بڑا مگر صنعتی شہر ہے، یہاں دو سے اڑھائی ہزار کارخانے ہیں، قالین، کپڑے اور لوہے کی مصنوعات کے علاوہ دستکاری ہے۔ اصفہان کا میدان نقش جہاں دن رات آباد رہتا ہے، اس کو نصف جہاں اسکوائر بھی کہا جاتا ہے، یہ کھلے میدان میں خوبصورت مال ہے، میدان کے اندر تعلیمی اداروں، مساجد اور خریداری مراکز کے دروازے کھلتے ہیں، میدان کے اندر سے چھوٹے دروازوں سے نکلیں تو پس دیوار طولانی بازار ہیں، ان بازاروں میں سے کئی بازار نکلتے ہیں، بازاروں کے ساتھ تجارتی قافلوں کے قیام کیلئے سرائیں ہیں، یہ سب کچھ صدیوں پرانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اصفہان صدیوں پہلے بہت بڑا تجارتی مرکز تھا، ممکن ہے آدھی سے زیادہ دنیا کی تجارت یہیں سے ہوتی ہو، یہاں چہل ستون ہے، اس وسیع و عریض گلستاں میں کئی باغات ہیں، باغات کے درمیان میں بادشاہ کا محل، جس کے دونوں اطراف تالاب ہیں، اسی چہل ستون کے ساتھ تالار تیموری ہے، یہ امیر تیمور کے نام سے بہت بڑا ہال ہے۔ اصفہان میں چہار باغ ہے، شہر کے درمیان سے دریا گزرتا ہے، دریا میں سارا سال تو پانی نہیں ہوتا، کچھ مہینے ضرور ہوتا ہے، پانی ہو نہ ہو اصفہان کی جاگتی راتوں میں دریا کے پل پر گلوکار آواز کا جادو جگاتے ہیں، دریا کے ایک طرف کئی سینما گھر تو دوسری طرف ریستورانوں کی قطار ہے جہاں خوبصورتی اور نفاست جھومتی ہے۔ اصفہان میں کلاک ٹاور، بیل ٹاور اور میوزیم ہے، اصفہان کا ایک محلہ آرمینیا کے لوگوں پر مشتمل ہے، یہ لوگ دو ڈھائی سو سال پہلے آرمینیا سے آکر آباد ہوئے تھے، عیسائیوں کی اس بستی میں پرانے چرچ ہیں، اصفہان میں یہودی عبادت خانے بھی ہیں، ایران دیکھنے کے قابل ہے، آپ سیاحت کیلئے ایران ضرور جائیں، میٹھے لوگ ملیں گے، قدرتی ماحول آپ کو تازگی کا احساس دلائے گا، مجھے ایران میں کوئی کسی سے لڑتے نظر نہیں آیا اور نہ ہی کہیں میں نے جمگھٹا دیکھا۔ ایرانی پر امن لوگ ہیں نہ ہی وہاں پولیس ناکے اور نہ ہی آپ کی تلاشیاں ہوں گی، شب اپنے نصف سے دو قدم آگے بھی چلی جائے تو آپ کو ایرانی شہر جاگتے ملیں گے، رات ڈیڑھ دو بجے تک تو وہاں پارکوں میں رونق رہتی ہے۔ ہم ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے دفتر گئے اور انٹرویو کیلئے سرکاری ٹی وی سحر جانے کا اتفاق ہوا، جہاں آغا حسین مہاجری، راشد نقوی اور علی عباس سے ملاقات ہوئی۔ ایرانیوں کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے کہ وہ باہر سے آنے والے سیاحوں کیلئےاچھے مترجم پیدا کریں، انہیں خاص طور پر ایسے مترجم تیار کرنے چاہئیں جو انگریزی، عربی، چینی، اردو، روسی اور فرانسیسی زبانیں روانی سے بول سکتے ہوں، یہ وہ ہتھیار ہے جو ایرانی سیاحت کو چار چاند لگا سکتا ہے۔ بقول اقبال
جہاں ہے تیرے لئے، تو نہیں جہاں کے لئے

اپنا تبصرہ بھیجیں