rauf klassra

عقل کا استمعال ممنوع ہے۔

جب بوریت یا اداسی ہونے لگے تو میں اسلام آباد میں موجود دو اچھی کتابوں کی دکان سعید بکس اور مسٹر بکس پر چلا جاتا ہوں۔ وہاں دو تین گھنٹے گزارنے سے دل بھی بہل جاتا ہے اور دھیان بھی بٹ جاتا ہے۔ کتابوں کا لمس اور کمپنی بھی کسی دیرینہ مہربان دوست سے کم نہیں ہوتی۔ آپ کو وہی کمفرٹ اور سکون ملتا ہے جو کسی دوست کے ہاتھ کےلمس میں ہوتا ہے جب آپ ڈپریس یا اداس ہیں اور دوست کہتا ہے چھوڑو یار کچھ نہیں ہوگا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ دو الفاظ بھی آپ کی روح کو تازہ کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
کتابوں کی محفل بھی کچھ اس قسم کی ہے جہاں آپ خود سے نکل کر قدیم زمانوں میں سفر کرنے لگ جاتے ہیں ۔
ہر دفعہ احمد سعید سے کتابوں پر گفتگو ہوتی ہے۔ ان کے مینجر اختر صاحب کو میری چوائس کا علم ہے لہذا وہ جا کر کتابیں لا کر میرے سامنے میز پر رکھ دیں گے۔
احمد سعید اکثر پاکستان کے حالات پر کڑھتا رہتا ہے۔ جب وہ پاکستان سے باہرکتابیں لینے جاتا ہے تو وہاں کے حالات دیکھ کر ان کا موازنہ پاکستان سے کرتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے۔ احمد کے والد سعید صاحب نے پہلے پشاور اور پھر اسلام آباد میں بڑا نام پیدا کیا اور بک لورز کے دلوں میں جگہ بنائی۔ تاہم ایک دن انہیں پتہ چلا کہ انہیں کینسر ہے۔ وہ واک کرنے نکلے تو گر گئے۔ کتنی دیر تک وہ اکیلے روڈ پر پڑے رہے۔ کوئی نہ رکا۔ آخر ایک انگریز وہاں سے گزرا تو اس نے کار روکی۔ اس نے انہیں پہچان لیا کہ یہ تو وہی ہیں جن کی کتابوں کی دکان سے وہ اکثر بکس خریدتے ہیں۔ وہ انہیں اٹھا کر بک اسٹور پر چھوڑ گیا۔ احمد کی آنکھوں میں نمی تھی کہ ان کے والد سڑک پر گرے پڑے رہے اور کوئی نہیں رکا۔ آخر کوئی رکا تو بھی ایک گورا اور اتفاقا اس نے انہیں پہچان بھی لیا۔ اپنے باپ کا علاج کرانے وہ اسلام آباد میں ایچ ایٹ کے بڑے ہسپتال گئے۔ پتہ چلا انہیں بلڈ کینسر ہے۔ فورا ہی مزید ٹیسٹ کیے بغیر کیمو تھراپی شروع کر دی گئی۔ پاکستانی ڈاکٹروں کو کینسر کا ایک ہی حل سمجھ آتا ہے کہ فورا کیمو شروع کر دو۔ اور جو میں نے دیکھا ہے پاکستان میں ڈاکٹر کیمو کے نام پر مریض کی زندگی چھ ماہ یا ایک سال تک بڑھانے کی فلاسفی پر چلتا ہے۔ وہ پہلے دن ہی یہ مان لیتا ہے کہ اس مریض نے نہیں بچنا اور کم از کم تکلیف ہو۔ مان لیا سب ڈاکٹرز ایسے نہیں ہوں گے لیکن اکثریت ایسے ہے۔
مجھے یاد ہے جب اوکاڑہ کا نوجوان عبدالرحمن مجھ سے ملنے اسلام آباد آیا تھا تو اس کو آن کولوجسٹ نے کہا تمہارے پاس صرف مشکل سے ایک ماہ باقی ہے۔ تم کیوں کیموتھراپی پر باپ کے پیسے ضائع کرتے ہو۔ چند دنوں بعد تم نے ویسے مر جانا ہے۔
میں نے دو دفعہ صدمے کی حالت میں پوچھا واقعی ڈاکٹر نے تمہیں ایسا کہا؟
عبدالرحمن کے ساتھ اس کا دوست تھا جو اسے کیموتھراپی کرانے ساتھ بائیک پر لے جاتا تھا بولا جی میرے سامنے اس نے کہا تھا۔ میں کتنی دیر صدمے کی حالت میں بیٹھا رہا کہ کیسے کوئی ڈاکٹر اتنی بے رحمی ساتھ کسی کو موت کا دن بتا رہا تھا۔ مریض تو ڈاکٹر کے پاس اللہ کے بعد آخری امید سمجھ کر جاتے ہیں۔ میں سوچتا رہا کہ پھر بھی عبدالرحمن کتنے حوصلے سے اوکاڑہ سے طویل سفر کر کے میرے پاس آیا تھا۔ اس نے میرے کالموں میں فرشتہ نما انسان ڈاکٹر عاصم صہبائی کا پڑھا تھا کہ ان سے رابطہ کرا دیں۔ خیر ڈاکٹر عاصم صہبائی سے رابطہ کرایا۔ وہ فرشتہ نما انسان زندگی سے مایوس مریضوں کے لیے ہمیشہ ایک روشنی کی کرن ثابت ہوتا ہے۔ عبدالرحمن امریکہ گیا۔ عاصم صہبائی نے علاج کیا، وہ تین برس مزید زندہ رہا۔ اس دوران عبدالرحمن نے وہاں اعلی یونیورسٹی سے کورسز بھی کیے۔اگرچہ وہ تین چار سال زندہ رہا لیکن اب زرا تصور کریں اس ڈاکٹر نے جسے اسے تین ہفتے کی مہلت دی تھی اور کیموتھراپی پر پیسے بچانے کا مشورہ دیا تھا۔
یہی حال احمد سعید کے والد کا ہوا۔ جو ڈاکٹر علاج کررہا تھا وہ تبلیغ پر چالیس دن کے لیے نکل گیا۔ کینسر کے مریض اس کا منہ تکتے رہ گئے۔ اس ڈاکٹر کے نزدیک حقوق العباد اہم نہ رہے۔
احمد نے بھی باپ کی زندگی بچانے کے لیے امریکہ میں ڈاکٹروں سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا لے آئیں۔ وہاں پہنچے تو ڈاکٹروں نے بتایا وہ ان کو اس طرح ٹھیک کر دیں گے کہ وہ خود کو نوجوان سمجھیں گے۔ لیکن ڈاکٹروں کو علم نہ تھا کہ وہ پاکستان میں کیموتھراپی کرا چکے ہیں۔ جب وہاں ٹیسٹ ہوئے تو پتہ چلا ان کی کیموتھراپی ہو چکی ہے۔ بلڈ کنیسر کا وہ مخصوص علاج نہیں ہوسکتا تھا اگر بندہ پہلے کیمو کرچکا ہو۔ یوں احمد اپنے باپ کی جان نہ بچا سکا کیونکہ پاکستان میں ڈاکٹروں نے اندھا دھند فورا ہی کیمو شروع کر دی اور یوں جو علاج ہوسکتا تھا وہ کام نہ آسکا۔
احمد اکثر یہ واقعات بار بار سنا کر تلخ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے بندہ کدھر جائے کیا کرے۔ پیسہ بھی لگتا ہے اور بندہ بھی جان سے جاتا ہے۔
احمد کو ایک اور مسلہ بھی درپیش تھا۔ میں نے پوچھا کیا وجہ ہے آج کل نئی کتب کم نظر آرہی ہیں۔ انہوں نے اس پر ایک اور کہانی سنائی۔
ان کا کہنا تھا وہ لندن اور فرینکفرٹ گئے جہاں کتابوں کے میلے ہوتے ہیں اور وہ خریداری کر کے پاکستان لاتے ہیں۔ اب کی دفعہ بھی انہوں نے چالیس ہزار ڈالرز کے قریب کتابیں خریدیں اور جب پاکستانی بنکوں سے ایل سی کھلوانے کا موقع آیا تو یہاں کوئی تیار ہی نہیں۔ بلکہ اب تو الٹا غیرملکی پبلشرز یا دیگر کاروباری ہمارے ساتھ کاروبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا ہم پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں چند ہزار ڈالرز کا آڈر ہوتا ہے اس پر بھی انہیں ایسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسحاق ڈار دور میں ان عالمی پبلشرز کا بڑا نقصان ہوا کہ آڈرز پورٹ پر پڑے رہے کلئرنس نہیں ہوئی۔ڈیمرج چارجز الگ سے پڑے۔ وہ بتانے لگے اب ان کی چالیس ہزار ڈالرز کے قریب کی خریدی کتابیں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ مجھ سے پوچھنے لگے اب آپ بتائیں اس ملک میں بندہ کیا کاروبار کرے۔ کس کے پاس جائے اور اپنا مسلہ بتائے اورحل کرائے۔
خیر میں نے ان کی کتابوں کے مسلے پر ٹوئٹ کیا اور وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے درخواست کی کہ وہ اسٹیٹ بنک کو یہ ہدایت دیں کہ وہ کتابوں کے آڈرز کی ایل سی کو کلئر کریں۔ اس ملک میں کچھ کتابیں ہی آنے دیں ۔پہلے انڈیا سے بڑی سستی کتب اتی تھیں۔ انڈیا سے تجارت بند ہوئے چار سال گزر گئے ہیں۔ وہاں سے بھی اب کتابوں کی سپلائی بند ہوگئی ہے۔ رہی سہی کسر ڈالر اور پونڈز کے ہوش ربا ریٹس نے پوری کر دی ہے۔ جو اچھی کتاب کبھی ہزار پندرہ سو میں مل جاتی تھی وہ اب چار سے پانچ ہزار روپے سے کم میں نہیں ملتی۔ مہنگائی کے اس دور میں اب کتاب لینا بھی بہت بڑی عیاشی بن گئی ہے۔ خیر انوارالحق کاکڑ صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے نہ صرف وہ ٹوئیٹ پڑھا بلکہ اس کا ٹوئیٹر پر ہی جواب دیا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ اس مسلے کو خود حل کرائیں گے۔ کاکڑ صاحب کو ٹوئیٹ کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ خود کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں ۔ میری ان سے برسوں پہلی ملاقات بھی مسٹر بکس پر ہوئی تھی ۔
بحرحال یہ بھی عجیب ملک ہے کہ آج کل سینٹ کی فنانس کمیٹی ایک سکینڈل کی تفتیش کررہی ہے۔ اس کے مطابق پشاور اور کوئٹہ کی آٹھ پارٹیوں نے چین سے سولر پیینل کے نام پر بنکوں میں کیش جمع کرا کے ستر ارب روپے کی اوور انواسنگ کی۔ قانون تحت ادائگی چین میں ہی ہونی تھی لیکن ڈالرز دوبئی کمپنی کو بھیجے گئے۔ چین میں جس کمپنی سے ریٹ زیادہ لگوا کر سولر پینل منگوائے وہ کمپنی بھی انہی پاکستانی پارٹیوں کی اپنی تھی۔ جس کمپنی کو دوبئی ڈالرز بنکوں زریعے بھجوائے وہ بھی انہی لوگوں کی کمپنی تھی۔ کسی بنک نے اربوں روپے کیش لینے سے انکار نہیں کیا۔ کیش لے کر اس کے بدلے ڈالرز بڑے آرام سے دوبئی بھیج دیے۔ کروڑں ڈالرز ملک سے نکل گیا ۔ دوسری طرف یہاں احمد طویل عرصے سے تمام قانونی تقاضے پورے کرنے بعد چالیس ہزار ڈالرز کی ایل سی کلیر نہیں کرا سکا۔
وہی بات ہمارے معاشرے میں سب چیزوں کا استمعال جائز ہے ماسوائے عقل کے اور کتابوں بارے سنا ہے وہ انسان کو عقلمند بناتی ہیں۔
نہ ہوگی کتاب نہ عقل کی بات ہوگی۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی
بانسری

عقل کا استمعال ممنوع ہے۔” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں