دور دور تک

دور دور تک

پاکستان میں ظلم و ستم پر مشتمل دو خطوط سے پہلے مودی کی بات ہو جائے کہ وہ انڈیا کو یوگا کا بانی ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 21 جون کو یوگا کے عالمی دن کے موقع پر مودی نے دنیا کو بتانے کی کوشش کی کہ انڈیا یوگا کا بانی ہے، ایسا ہر گز نہیں، مودی نے جھوٹ بولا کیونکہ پانچ ہزار سال پہلے ٹیکسلا میں قائم دنیا کی پہلی یونیورسٹی سے لوگ یوگا، آئیورویدا (آئیورویدک)، فنون حرب اور فنونِ لطیفہ سیکھا کرتے تھے، یونانیوں نے یہیں سے سیکھا، تین ہزار سال پہلے ٹلہ جوگیاں( جہلم) میں ایک یونیورسٹی یوگا سکھاتی تھی۔ بڑے بڑے یوگیوں نے یہیں سے تربیت حاصل کی ۔اگر انڈیا میں یوگا یونیورسٹیاں اور بڑے بڑے آشرم ہیں، ریکھا اور شلپا شیٹھی یوگا کرتی ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انڈیا یوگا کا بانی ہے۔ مودی جھوٹا دعویدار ہے ۔
9 مئی کے قابلِ مذمت واقعات کو بنیاد بنا کر حکمرانوں نے پی ٹی آئی کارکنوں پر ظلم و تشدد کے وہ پہاڑ توڑے کہ ایسے ستم دھرتی نے پہلے نہیں دیکھے تھے۔ دوخطوط میں سے پہلا خط سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر طاہر علی جاوید کا ہے۔جو انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کو لکھا ہے، دوسرا خط عالیہ حمزہ کی بیٹی کا ہے۔ دونوں خطوط سے دکھ بولتے ہیں۔ کرب سسکیاں بلند کرتے ہیں ،کلیجے میں چبھنے والے درد آنکھوں کو آنسوؤں کا سمندر بنا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر علی جاوید لکھتے ہیں
“میں بے قصور لاہور سمیت کہیں بھی فسادات میں شریک نہیں تھا۔ 7 مئی سے 11 مئی تک اپنے حلقے شکر گڑھ میں تھا۔ 9 مئی کے واقعات سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا مگر جونہی میں 12 مئی کو لاہور پہنچا تو نارووال پولیس کے 30 ،40 مسلح اہلکاروں نے میرے گھر کی دیواریں توڑ دیں، انہوں نے میری بیٹیوں کے کمروں کے دروازے توڑ دیے، میری لائبریری کا دروازہ توڑ کر مجھے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے، میرے ساتھ حافظ آباد جیل کے ڈیتھ سیل میں7 دنوں تک دہشتگروں جیسا سلوک ہوتا رہا. میں نے سابقہ دور میں ریسکیو 1122 بنائی ۔ میرے والد نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر نعمت علی جاوید نے ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 7 دن نامعلوم وجوہات کی بنا پر حافظ آباد جیل کے ڈیتھ سیل میں رہا۔ سنگین بیماریوں کے باوجود مجھے دوائی سے محروم رکھا گیا- بالآخر لاہور ہائیکورٹ سے رہائی نصیب ہوئی۔ اس دوران بیرون ملک مقیم میرے خاندان کے لوگوں کو اذیت سے گزرنا پڑا ۔ مجھ پر کبھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی کیونکہ میں نے پوری زندگی قانون کی پاسداری کرنے والے محب وطن پاکستانی کے طور پر گزاری۔
بھیانک تصویر کا سیاہ ترین رخ گزشتہ منگل کو میرے سامنے آیا- جب میری بیوی، جو کہ پیتھالوجی کی پروفیسر ہے، 4 بچوں کی ماں ہے، فوج میں 3 نسلوں سے اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے فوجی افسروں کی بیٹی ہے، ایم بی بی ایس اور پی ایچ ڈی ہے، اس نے مجھے اپنے زخمی سینے، بازوؤں اور کمر کی تصاویر دکھائیں تو میرے پاؤں سے زمین نکل گئی۔ اس نے بتایا کہ پولیس والوں نے
مجھے بندوقوں کے بیرل سےمارا۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے جمعہ 12 مئی کی صبح ہمارے گھر پر دھاوا بولا- میری حالت دیکھ کر اہلیہ کہنے لگی میں نے ڈپریشن اور خوف کی وجہ سے یہ درد چھپائے رکھا۔ پولیس نے ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور محب وطن خاندان کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ میرے مقامی سیاسی مخالفین جن کا تعلق ن لیگ سے ہے انہوں نے کس طرح میرا نام دے دیا۔9 مئی کے بعد مجھ جیسے بے گناہوں کے نام صرف سیاسی فائدے کے لئے استعمال کئیے گئے”.
قومی اسمبلی کی رکن عالیہ حمزہ کی صاحبزادی لکھتی ہیں “کچھ دن پہلے، میری ماں کی طبیعت ناساز ہونے لگی۔ جیل کے انتہائی ناموافق حالات کی دل دہلا دینے والی کہانی یوں ہے کہ میری ماں نے طبی امداد مانگی مگر انکار کر دیا گیا۔ ان کی طبیعت بگڑ گئی اور ایک دن پہلے بے ہوش کر گر پڑیں جس کی وجہ سے ان کے سر کے پچھلے حصے سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ گرنے کی وجہ سے بازو اور کندھے پر شدید چوٹیں آئیں۔ 24 گھنٹے گزر چکے ہیں کوئی مسیحا ان تک نہیں پہنچا جبکہ ہمیں ان کی میڈیکل رپورٹ کی اشد ضرورت ہے، میری ماں کی گرفتاری کو 42 دن ہوچکے ہیں، یہ 42 دن بدترین ہی نہیں بھیانک ہیں۔ اس دوران ہمارے خاندان پر کیا گزری، لمحے روتے ہیں، فضائیں ماتم کرتی ہیں ۔ شاید اندھیر نگری کا ماحول ایسا ہی ہوتا ہو”۔
آخر میں پرانی غزل کا ایک شعر یاد آرہا ہے

پیڑوں سے پتے جھڑ گئے موسم ہوا اداس
شاید ملی ہے کوئی سزا دور دور تک

اپنا تبصرہ بھیجیں