tariqkhan tareen

قومی امن اور خوشحالی کیلئے بلوچستان میں گرینڈ جرگہ

بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے انتہائی اہم اقدام سامنے آیا ہے، مفاہمت کے حوالے سے بلوچستان کے دارالحکومت میں حکومت اور قبائلی عمائدین کی جانب سے گرینڈ جرگہ منعقد ہوا۔ جہاں اس جرگے میں وزیر اعلٰی بلوچستان سمیت انکے وزراء اور سابقہ مزاحمتکار گلزار امام شمبے بھی شامل تھے۔ جرگے کا مقصد بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے غور و فکر کے ساتھ ساتھ صوبے کی بہتری کے لئے حکمت عملیوں اور مفاہمتی کوششوں کو دوام دینے کے لئے مشران کے درمیان سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ جرگے کے انعقاد کو سراہتے ہوئے قبائلی معتبرین نے بلوچستان کی بہتری کے لئے لیے گئے حکومتی اقدامات اور کوششوں کو سراہا۔ قارئین کرام بلوچستان میں امن و امان اور مفاہمتی کوششوں کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ بلوچستان آسمبلی میں سابق ایم پی اے ثناءبلوچ نے Truth & Reconciliation Commission کے لئے 16 فروری کو قراداد جمع کرائی جنہیں 23 فروری کو متفقہ طور پر منظور کروائی گئی۔ اسی طرح سے بلوچستان میں نوجوانوں کی جانب سے بھی مطالبہ کیا جاتا رہا ہے ہے کہ مفاہمتی عمل کو دوام دینے کے لئے حکومت اپنی ترجیحات کا تعین مفاہمتی عمل پر مرکوز رکھے۔ اور اس حوالے سے صوبے کی مختلف یونیورسٹیوں میں سیمیناروں کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچ طلباء نے صوبے میں امن و امان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک خوشحال اور پر امن بلوچستان چاہیے جس میں ہمیں اپنی بھرپور صلاحیتوں کے استعمال کا موقع میسر ہو تاکہ دنیا میں برھتے ہوئے جدت کا مقابلہ کرکے اپنا لوہا منوا سکے۔

لہذا بلوچستان میں عوام کی طرف سے بڑھتے ہوئے مفاہمتی مطالبے کے پیش نظر بلوچستان میں جرگے کا انعقاد کیا گیا۔ اس جرگے میں نگراں وزیر اعلٰی بلوچستان میر علی مردان ڈومکی، نگراں وزیر داخلہ میر زبیر جمالی، نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی، نگران صوبائی وزیر سردار اعجاز احمد جعفر، نگران صوبائی وزیر پرنس احمد علی، نگران صوبائی وزیر کھیل و ثقافت نوابزادہ جمال رئیسانی، نگران صوبائی وزیر امان اللہ کنرانی، نواب محمد خان شاہوانی سابق صوبائی وزیر سمیت 150 کے قریب قبائلی عمائدین، اکابرین، علماء اور اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس جرگے کی اہم خصوصیت یہ بھی یے کہ اس جرگے میں BNA کے سابق لیڈر گلزار امام شمبے نے بھی شرکت اور خطاب کیا۔ اس گرینڈ جرگے سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ جرگہ ہمیشہ سے ہماری قومی اور بلوچ روایات کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بھی ہمارے بڑے اکٹھے ہوئے اور دل و جان سے اس مملکت خداداد کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ میر علی مردان ڈومکی نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ مسائل جتنے بھی گمبھیر کیوں نہ ہوں ہم مل کر ان کا حل نکال سکتے ہیں، پہاڑوں پر موجود لوگ واپس آ جائیں حکومت بلوچستان انہیں خوش آمدید کہے گی حکومت بلوچستان اس عمل سے منسلک رکاوٹوں کو بھی ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گی، قبائلی عمائدین بھی اپنا کلیدی کردار ادا کریں تاکہ ہمارا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو، یہ ملک اور صوبہ ہمارا گھر ہے آئیں مل کر اس کو سنواریں اور امن کا گہوارہ بنائیں۔

جرگے سے خطاب کرتے ہوئے گلزار امام شمبے نے کہا کہ بلوچ قومی جرگے اور سیاسی مجالس سے مشکلات میں حل ڈھونڈنے میں مدد ملے گی، دنیا کے حالات اور اپنی گرفتاری کے بعد مجھے احساس ہوا کہ بلوچستان کے حقوق کے لیے سیاسی طریقہ کار بہتر اور حل طلب طریقہ ہے، بلوچستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، بلوچستان کے نوجوانوں کی قومی زبان اور وسائل پاکستان کے قومی دائرے میں کسی خطرے سے دوچار نہیں، بلوچستان سے نوجوان طبقے کو پارلیمانی سیاست اور خدمت کا موقع دینے کے لیے راہ ہموار کرنا ہوگی، سابق مزاحمتکار نے اپنے خطاب میں صوبے میں امن و امان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں امن کا راستہ تلاش کرنا ہوگا تاکہ بلوچستان کے باشندے ایک پرامن ماحول میں ترقی کی منزلیں طے کریں، حکومت بلوچستان سے التماس ہے کہ جو لوگ واپس آنا چاہتے ہیں ان کو آ نے کا راستہ دیں، گلزار امام شمبے نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے کافی لوگ رابطے میں ہیں اور وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، انشاءاللہ بہت سارے لوگ بات چیت کے ذریعے واپسی کا راستہ اپنائیں گے۔

نگران صوبائی وزیر داخلہ میر زبیر جمالی نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا اختلافات کو دور کرنے کے لیے اس جرگہ کا انعقاد کیا گیا جو کہ خوش آئند ہے، صوبے کے قبائلی عمائدین اور قومی دھارے میں شامل ہونے والے تمام شرکاء کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ نگران صوبائی وزیر سردار اعجاز احمد جعفر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں اس پہلے جرگہ کا انعقاد مستقبل میں خوشحال اور ترقی یافتہ بلوچستان کا پیشہ خیمہ ثابت ہوگا۔ جرگے میں موجود نگران صوبائی وزیر پرنس احمد علی نے بھی خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ترقی کی شاہراہ پر لانا ہم سب کی قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، نگراں صوبائی وزیر کھیل و ثقافت نوابزادہ جمال رئیسانی نے کہا کہ ہم سب ایک ہیں، یہ ملک بے پناہ قربانیوں کی بدولت وجود میں آیا ہے اور یہ ملک ہم سب کا ہے، نواب محمد خان شاہوانی سابق صوبائی وزیر بھی اس جرگے میں موجود رہیں، انہوں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی و سرکاری تنازعات کے حل کے لئے کمیٹیاں بنائی جائیں، نگران صوبائی وزیر امان اللہ کنرانی نے گرینڈ جرگے سے خطاب میں کہا کہ اس جرگے میں جیونی کے نیلگوں ساحل سے لے کر ژوب کے چلغوزے کے قدیم جنگلات اور چاغی میں ریکوڈک کے ذخائر سے لے کر موسی خیل کے سرسبز پہاڑوں تک کے تمام قبائل کی نمائندگی شامل ہے۔

قارئین کرام بلوچستان کی تاریخ میں اس عظیم الشان جرگے کے انعقاد سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑگئی، یہ بات طے ہے کہ اگر بلوچستان میں مفاہمتی عمل پر تمام شراکتدار اکھٹے اور مرکوز رہیں تو بلوچستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں سی پیک سر چڑھ کر کامیابیاں سمیٹ رہی ہے، ریکوڈک کی شکل میں اللہ تعالٰی نے بلوچستان پر اپنی کرم نوازی دروازے کھول رکھے ہیں۔ بلوچستان میں میں معدنیات کے زخائر کی بہتات ہے اگر تو مفاہمتی عمل کو نیک نیتی کے ساتھ اگے بڑھایا گیا اور فریقین کے دونوں اطراف کو قائل کرنے کی زمہ داری اس جرگے نے پایہ تکمیل تک پہنچائی تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے اور پاکستان کی ترقی سے تمام ریاست مخالفین کو منہ کی کھانی پڑھے گی۔ انشاءاللہ
☆☆☆☆☆☆☆

اپنا تبصرہ بھیجیں