سردیوں کی شام اور دوستوں کی محفل

گزشتہ شب لاہور میں سرما کی پہلی بارش ہوئی تو موسم انگڑائی لے کر تبدیل ہوگیا،فضا کی آلودگی کم ہو گئی، ہوا میں خنکی بڑھ گئی اورکچھ رومانویت کا احسا س ہونے لگا۔ایسے میں خیال آیا کہ یاروں کی محفل سجائی جائے۔ویسے تو ہم یار دوست تقریباً ہر ہفتے ہی ملنے کا موقع نکال لیتے ہیں مگرسردیوں میںاِن محفلوں کا لطف اور دورانیہ بڑھ جاتا ہے ۔ہم سب برادرم اجمل شاہ دن کے کالج میں اکٹھے ہو کر دالان میں الاؤ روشن کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر رات گئے مختلف موضوعات پر گپ شپ چلتی رہتی ہے ۔دوستوں کی اِس محفل میں اِس مرتبہ ہمارے ساتھ اردو کے نامور نقاد، محقق اورافسانہ نگار ناصر عباس نیر بھی تھے۔اِس سے آپ یوں نہ سمجھیے گا کہ ہم لوگ باقاعدہ کسی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں جس میں مہمان خصوصی اور صاحب صدر وغیرہ کو مدعو کیا جاتا ہے بلکہ یہ آٹھ دس دوستوں کی محفل ہوتی ہے جس میںشاعری،ادب،لسانیات،سماج، مذہب،سیاست اور صحافت سمیت ہر موضوع پر گپ شپ ہوتی ہے۔کبھی کبھار قبلہ احمد جاوید صاحب بھی ہماری مجلس میں شرکت کرکے شفقت فرما دیتے ہیں،اِن سردیوں میں ہمارا ارادہ ہے کہ میر ،غالب اور اقبال کی شاعری پر اُن سے گفتگو کی جائے۔ یہ جملہ ’گفتگو کی جائے‘ لکھنے کے بعدمجھے احساس ہوا ہے کہ میں کس قدر غلط لکھ گیا ہوں، اِس سے یوں تاثر ملتا ہے جیسے میں اور احمد جاوید صاحب آمنے سامنے بیٹھ کر اِن عظیم شعرا کے محاسن اور زبان کی لغزشوں پر بحث کریں گے ،حاشا و کلا میرا یہ مقصد نہیں تھا، اسے آپ میرے اسلوب کی کمزوری سمجھ لیں کہ مجھے اِس کے علاوہ کوئی اور فقرہ نہیں سوجھا۔سردیوں میں دوستوں کی یہ محفلیں اِس لیے بھی بڑھ جائیں گی کہ مرشد ِاعلیٰ عارف وقار صاحب اِن دنوں لندن سے لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں، عارف صاحب محفل میں شرکت کرنا تو پسند کرتے ہیں مگر انہیں گفتگو پر آمادہ کرنے کیلئےتقریباً اُن کی کنپٹی پر پستول رکھنا پڑتا ہے ورنہ آپ چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں،آپ کے سامنے لوگ زبان و بیان ، ادب، شاعری ، لٹریچر پر نہ جانے کیا انٹ شنٹ بولتے رہتے ہیں مگر آپ یوں سرجھکا کر خاموش رہتے ہیں جیسے کچھ جانتے ہی نہیں جبکہ حقیقت میں عارف صاحب استاذُ اْلاساتذَہ ہیں۔اللہ تعالیٰ مجھے بھی یوں صبر کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
گزشتہ شب ناصر عباس نیر کی گفتگو نے خوب رنگ جمایا۔ایک بات انہوں نے بے حد دلچسپ بتائی کہ اردو کے بڑے بڑے ادیبوں اور لکھاریوں کے ہاں ’ڈِکشن‘ کی کمی ہے ، مثلاً فیض کے کلام میں الفاظ و تراکیب کی خاصی تکرار ہے ، منٹو صاحب کی ڈِکشن بھی محدود ہے اور تو اور انتظار صاحب کے ہاں بھی یہ مسئلہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ دوسری طرف نیر مسعود ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے شعوری طور پر اِس بات کویقینی بنایا کہ وہ نثر میں شاعری کی تراکیب استعمال نہیں کریں گے ، یہ بےحد مشکل کام تھا جو انہوں نے کیا۔شمس الرحمن فاروقی کا ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسمان ‘ بھی ڈِکشن کا اعلیٰ نمونہ ہے (ویسے خاکسار کو ذاتی طور پر یہ ناول نہیں پسند، بے حد بوجھل تحریر ہے )۔رفیق حسین نسبتاً غیر معروف افسانہ نگاروں کی ذیل میں آتے ہیں مگر انہوں نے اپنے افسانوں میں جس طرح الفاظ اور تراکیب استعمال کی ہیں وہ حیرت انگیز ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ ایک عام ادیب کی ڈِکشن زیادہ سے زیادہ تین چار سو الفاظ تک محدود ہوتی ہے تاہم اِس کا یہ مطلب نہیں کہ منٹو اور انتظار حسین بڑے افسانہ نگاروں کی فہرست میں شامل نہیں ، ناصر عباس نیر انہیں اردو کے پانچ بڑے افسانہ نگاروں میں شامل کرتے ہیں ۔ اُن کے ساتھ آپ نے پریم چند، کرشن چندر، بیدی، عصمت چغتائی ، سریندر پرکاش (خاص طور سے اُن کا افسانہ بجوکا) اور غلام عباس کو بھی اردو کے بہترین افسانہ نگاروں کی فہرست میں شامل کیا، حیرت انگیز طور پر احمد ندیم قاسمی اِس فہرست میں شامل نہیں تھے، جب ہم نے اصرار کیا تو آپ نے ازراہ شفقت انہیں دسویں نمبر پر رکھ دیا لیکن ساتھ ہی یہ کہا کہ وہ اپنی اِس رائے پر نظر ثانی کریں گے۔ ایک حقیقی دانشور کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط نہیں کرتا بلکہ مسلسل اُس کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔
ناصر عباس نیر نے اپنی کچھ پسندیدہ کتابوں کا ذکر بھی کیا جن میں افلاطون کی ’اپالوجی‘ بھی شامل تھی، اُنکا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی شاندار کتاب ہے جو تاریخ اور ادب کے ہر طالب علم کو پڑھنی چاہیے، اِس میں افلاطون نے سقراط کی اُس تقریر کا احوال لکھا ہے جو اُس نے ایتھنز کی جیوری کے سامنے کی تھی۔ناصر عباس نے دوستوفسکی کی ’Notes from Underground‘ کا بھی ذکر کیا جو میری بھی پسندیدہ کتابوں میں شامل ہے، یہ ایک ایسا شاہکار ’ناول‘ ہے جسے پڑھنے کے بعد بندہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ اگر دنیا میں اعلیٰ ادب تخلیق کرنا ہے تو اِس پائے کا کرنا ہے ورنہ لکھنے کا کیا فائدہ!کچھ گفتگو میر ،غالب اور اقبال کی شاعری پر بھی ہوئی ، اردو کے دیگر نقادوں کے برعکس ، جیسے کہ شمس الرحمن فاروقی وغیرہ، ناصر عباس اقبال کی عظمت کے پوری طرح قائل ہیں۔فاروقی صاحب نے میر کے کلام کے بارے میں شعر شور انگیز کی صورت میں چار جلدوں پر مشتمل کتاب لکھ دی اور انہیں خدائے سخن قرار دیا ، غالب کے بارے میں بھی تفہیم غالب لکھ کر اُس کے اُن شعروں کی داد و تحسین بھی کر ڈالی جنہیں خود غالب تقریباًمہمل سمجھتے تھے مگر اقبال کے بارے میں انہوں نے محض پچاس صفحات کا کتابچہ لکھا جس کا نام How to read Iqbal تھا اور اُس میں بھی سارا زور اِس بات پر صرف کر ڈالاکہ اقبال کے بارے میں فلاں فلاں نقاد یا لکھاری نے جو کچھ کہا ہے وہ کس بنیاد پر درست نہیں ۔فاروقی صاحب اقبال کی شاعرانہ عظمت کااعتراف تو کرتے ہیں مگر نظریاتی ہونے کی وجہ سے اُنکے نمبر کاٹ لیتے ہیں۔دوستوں نے ناصر عباس نیر سے یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا آج کل انسٹا گرام پر ہونے والی مقبول عام شاعری ، جس کو نئی نسل بہت پسند کرتی ہے ، کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے تاکہ نوجوانوں کو ادب کی جانب راغب کیا جا سکے۔اِس پر انہوں نے کہا کہ جسے آپ شاعری کہہ رہے ہیں وہ صنف کسی بھی صورت شاعری کی تعریف پر پوری نہیں اترتی ، ویسے بھی مشاعرے کسی بھی معاشرے میں ادب کو پروان چڑھانے کا ایک بے حد محدود ذریعہ ہوتے ہیں، دنیا کی بے شمار زبانوں میں جو بہترین ادب تخلیق ہورہاہے وہ مشاعروں کا مرہون منت نہیں ۔اِس خاکسار کی بھی یہی رائے ہے کہ جسے ہم شاعری سمجھ رہے ہیں وہ دراصل تفریح کی ایک شکل ہے جسے تھیٹریکل پرفارمنس کے ذمرے میں تو رکھا جا سکتا ہے ،ادب میں نہیں ۔
سردیوں کی شام ہو، دوستوں کی محفل ہو، ادب پر گفتگوہو ۔اور زندگی میں کیا چاہیے !

سردیوں کی شام اور دوستوں کی محفل” ایک تبصرہ

  1. You are truly a just right webmaster. The website loading velocity is incredible. It seems that you are doing any unique trick. Furthermore, the contents are masterpiece. you have performed a magnificent process on this matter! Similar here: bezpieczne zakupy and also here: Sklep internetowy

اپنا تبصرہ بھیجیں