نعیم مسعود

آصف زرداری، نواز شریف اور ایم کیو ایم

سیاسی و انتخابی اتحادوں کا بننا یا ٹوٹنا یہ سب ہماری سیاسی خوب صورتیاں ہیں اور تابع فرمانیاں بھی۔ یہ الگ بات کہ ہمارے اتحاد عموماً حصولِ اقتدار کیلئے ہوتے ہیں جنہیں نظریاتی میل ملاپ اور اکثر حب الوطنی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ سن 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک معروف قومی اتحاد نظام مصطفےٰ کے نفاذ کیلئے بنا اور بے نظیر بھٹو کے خلاف 1988 میں بننے والا الائنس اسلامی جمہوری اتحاد کہلایا تھا۔ ان دونوں اتحادوں میں دو مشترک باتیںتھیں:
(1) دونوں اتحاد اپنے آپ کو دایاں بازو اور بھٹوز کو بایاں بازوں قرار دیتے تھے۔
(2) دونوں اتحادوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
کیا اس سے لگتا نہیں سیاسی شعور کل بھی اتنا ہی تھا جتنا آج ہے؟ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ڈیجیٹل لائف کے کمال اور گلوبل ویلج کے جمال نے جو سیاسی شعور اب دیا ہے وہ پہلے کبھی نہ تھا مگر درویش اس سے اتفاق نہیں کرتا ۔ ان اتحادوں کا ہمیشہ یہ بھی مطلب نہیں کہ ہر دفعہ خیالات اور احساسات کے ایک سو اَسی کے زاویے ہی مل بیٹھے یا سیاسی و نظریاتی طنزیات و مضحکات ہی کے دریچے کھلے، سود مند اتحادوں کے بھی در وا ہونے کی تاریخ موجود ہے تاہم بدقسمتی یہ کہ اقتدار کی اس کشمکش میںاکثر ساجھے کی ہَنڈیا چَوراہے پَر پُھوٹی۔
الیکشن فروری 2024 کے سبب سیاسی افق پر پھر سے نئے اتحادوں کی کہکشاں اور سیاسی ستاروں کے کئی جھرمٹ کی تراکیب سامنے آنے کے درپے ہے۔کچھ دوست تو “آئی جے آئی-2″کے بھی استعارات و تشبیہات لب پر لا رہے ہیں۔ دلچسپ صورت حال یہ کہ ایم کیو ایم اس دفعہ اپنے بروقت اتحادی فیصلوں کےمعمول سے ہٹ کر قبل از وقت اتحادی رنگ جمانے کا سوچ رہی ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ، الیکشن 2018 یہ “اپنی” نشستوں پر ازخود شب خون نہ مار سکی اور تحریک انصاف میلہ لوٹ کر لے گئی۔ انہیں خدشہ یہ ہے کہ کہیں پھر سے لٹیا نہ ڈوب جائے لہٰذا قبل از وقت کی پیش بندی کو رواج بخشا۔ کراچی و حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات میں بھی پچھلے دنوں ایم کیو ایم سے ہاتھ ہو گیا ، پہلے تو ایسے ہاتھ ان کی طرف کبھی بڑھ ہی نہ پائے تھے لیکن 2018 کے عام انتخابات اور اس کے بعد بلدیاتی انتخابات نے ان کے دبدبہ کو ایسا پیوند خاک کیا کہ اب ایک طرف اپنے دھڑوں میں اتحاد لائے اور دوسری جانب چڑھتے سورج کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کی پرستش شروع کرلی، بہرحال مسلم لیگ نواز سے اگر ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا انتخابی اتحاد ہوتا ہے تو یہ ایم کیو ایم کیلئے بہتر ہوگا، انہیں معلوم ہے مسلم لیگ نواز کا بول بالا ہے سو ابھی سہی ورنہ تو وہ عین حکومت بننے تک تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کے عادی تھے۔ لیکن آج کل ہمارے کچھ دوست مسلم لیگ نواز کے مختصر انقلابی منشور “ساہڈی اُتے گَل ھو گئی اے ..” سے بہت متاثر ہیں ، اور اسے ایم کیو ایم نے بھی چشمِ بینا سے بھانپ لیا ۔
مسلم لیگ نواز اور ایم کیو ایم کی سیاسی قربتوں پر پی پی پی کا ردعمل فطری تھا تاہم آصف زرداری نے مخالفین کی رفاقت کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ان کی اپنی سیاست ہے اور ہمارا اپنا سیاسی فلسفہ سو ان سے مقابلہ کریں گے۔ یہاں اکتوبر 2011 کی ایم کیو ایم کی ایک جمہوریت پسندی کی بات بھی دماغ پر دستک دے رہی ہے، یہاں اس کا تذکرہ بےجا نہ ہوگا کہ کراچی میں ایک بہت بڑی ریلی کا اہتمام ایم کیو ایم کی جانب سے عمل میں آیا ، یہ ریلی میاں شہباز شریف کےلاہور میں بحثیت وزیر اعلیٰ تقریر کا رد عمل تھا جسے استحکامِ جمہوریت ریلی کا نام دیا گیا۔ اس ریلی کا ردعمل ، شرکاء کی تعداد اور تاثر قابلِ ستائش تھا۔ اس وقت کے ایم کیو ایم کے قائد نے واضح کیا تھا کہ “صدر زرداری کا ہر قیمت پر جمہوریت کی خاطر ساتھ دیں گے اور اکیلا نہیں چھوڑیں گے! ” اسی دور حکومت میں زرداری صاحب کے قریبی دوست اور صوبائی وزیر ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم مخالفت میں حدود پار کرنے کے موڈ میں رہتے تو زرداری صاحب اپنے مزاج کے مطابق مصلحتوں اور مفاہمتوں کا دامن نہ چھوڑنے کی ہدایت کرتے ، اسی بات کے سبب آہستہ آہستہ ذوالفقار مرزا اور آصف زرداری کی راہیں جدا ہوگئیں حالانکہ ذوالفقار مرزا کی شریکِ حیات ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ان دنوں قومی اسمبلی کی اسپیکر تھیں، اور فہمیدہ مرزا نے اپنا وہ دورانیہ بھی مکمل کیا۔
سیاست کے اتار چڑھاؤ کھیل کا حصہ ہوتے ہیں، سیاسی مسلک بھلے ہی جتنے مرضی بدلیں لیکن قبلہ درست رہنا چاہئے۔ ظاہری طور پر اور درونِ خانہ کہانیوں سے بھی جو باتیں سامنے آئی ہیں اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ مخالف دوست بنیں یا دوست مخالف، ہر صورت میں زرادری وضع داری اور زرداری جمہوریت پسندی شیر و شکر رہتے ہیں۔
اتحادوں کے بننے اور ٹوٹنے یا سیاست دان کے پارٹی بدلنے کا سلسلہ فطری ہے، اسے ریاست کیلئے خطرناک قرار دینا درست نہیں ، سیدھی سے بات ہے سیاست دان اس بیٹسمین کی طرح ہے جس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ وکٹ پر رہے، وکٹ پر رہے گا تو رنز بنیں گے۔ اگر سیاست دان وکٹ پر نہ رہے یا وکٹ پر رہنے کی جدوجہد نہ کرے تو اس کے ڈیرے کا حقہ بھی بجھ جایا کرتا ہے۔ بات بس اتنی مدنظر رہے کہ جیتے تو مخالفین کو گالی دینے، بندوق کی شُست پرہاتھ رکھنے کے بجائے پرفارم کرے۔ ہارے تو اپوزیشن میں بیٹھ کر حب الوطنی کا مظاہرہ کرے اعلانِ جنگ نہیں! سیاست کا کہہ لیں یا جمہوریت کا بہرحال سبق یہی ہے کہ آئین فہمی، آئین سازی اور آئین پر عمل عوام اور انسانی حقوق کو تقویت پہچانے میں مدد دیتے ہیں کسی حکومت میں ہوں یاکسی اپوزیشن میں۔ ان دونوں صورتوں میں پارلیمان میں رہنا ضروری ہے بھاگنا نہیں۔
اتحادی معاملات کے حوالے سے، یادوں کے دریچے سے یہ بھی نظر میں ہے، جون 1992 میں ایم کیو ایم کے خلاف گرینڈ آپریشن بھی شریف حکومت نے کرایا ، اور پھر 17 اکتوبر 1998 میں گورنر سندھ حکیم سعید کے قتل کی پاداش میں شریف حکومت اور ایم کیو ایم میں دوریوں نے جنم لیا، ایم کیو ایم نے سندھ حکومت سے علیحدگی اختیار کی ، نتیجتاً لیاقت جتوئی کے اکثریت کھونے سے گورنر راج لگا۔ ایم کیو ایم بانی کی اشتعال انگیز تقریر کے باعث 2016 کی شریف حکومت ہی نے پابندی بھی لگائی ۔ ایم کیو ایم کے “مریدِ نو” سے ہٹ کر بھی داد تو میاں نوازشریف کی بنتی ہے کہ دو صدور سردار فاروق لغاری اور غلام اسحاق خان کو سیاسی نیست و نابود کیا مگر ان کی اولادیں آج مرید ہیں، تین سے زائد آرمی چیفس سے مَتھا لگایا مگر آج مقتدر کی آنکھ کا پھر تارا ہیں! بی بی محترمہ سے میثاقِ جمہوریت بھی کیا، بی بی اور زرداری صاحب مشرف کے نازل کردہ زوال کے دور میں 2007/8 میں ہمدردیاں بھی سمیٹیں، بھئی واہ ! بہرحال اتحادی و غیر اتحادی سیاست میں زیادہ کامیابیاں نواز شریف کے حصہ میں آئیں تاہم جمہوری خدمت، آئینی خدمت، وفا، مفاہمت کی شہنشاہیت اور مشکل مراحل میں پاکستان کھپے جیسے اعزازات مردِ حُر ہی کے رہے !

اپنا تبصرہ بھیجیں