‏آج خوشبوؤں کی شاعرہ پروین شاکر کا یومِ پیدائش ہے۔۔

تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات…
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں…

پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ مباحثوں اور مشاعروں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور لسانیات میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں۔ پھر 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔ 1990ء میں ٹرینٹی کالج امریکہ سے تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔ پروین شاکر کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔ 1977ء میں ان کا پہلا مجموعۂ کلام “خوشبو” شائع ہوا۔ اس مجموعے کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی اور پروین شاکر کا شمار اردو کے صف اول کے شعرا میں ہونے لگا۔ خوشبو کے بعد پروین شاکر کے کلام کے کئی اور مجموعے “صد برگ”، “خود کلامی” اور “انکار” شائع ہوئے۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کلام کی کلیات “ماہِ تمام” بھی شائع ہو چکی تھی جبکہ ان کا آخری مجموعہ کلام “کفِ آئینہ” ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔
پروین شاکر نے کئی اعزازات حاصل کئے تھے جن میں ان کے مجموعۂ کلام “خوشبو” پر دیا جانے والا آدم جی ادبی انعام، “خود کلامی” پر دیا جانے والا اکادمی ادبیات کا ہجرہ انعام اور حکومت پاکستان کاصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی شامل ہیں۔

26 دسمبر 1994ء کی صبح پروین شاکر اسلام آباد میں اپنے دفتر جا رہی تھیں کہ ان کی کار اسلام آباد کے ظفر چوک پر سامنے سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں پروین شاکر شدید زخمی ہوئیں، انہیں فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

ان کی لوح مزار پر انہی کے یہ اشعار تحریر ہیں.

یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہنر کو حوصلۂ لب کشائی دے

شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستا سجھائی دے…

اپنا تبصرہ بھیجیں