صحرائے چولستان کے عظیم قلعہ ڈیراور کی سچی کہانی۔

کاشی ،متھرا،پراگ بھڑ،کسنیری،بھٹ نیر۔
ڈگم، ڈیراور،گڑھ گنجنی،نووں جیسلمیر۔
کہتے ہیں جو کہانی پشت در پشت چلتی ہوئی سینہ بہ سینہ بیان کی جاتی ہے اس میں حقیقت ہی حقیقت جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کیوں کہ کسی کے زور و زبر سے یہ کہانی لکھی نہیں جاتی بلکہ دل کی کتاب میں صدیوں سے محفوظ رہتی ہے۔ آئیے دوستو!
آج ہم آپ کو ‘قلعہ ڈیراور’ کی سچی کہانی بیان کرتے ہیں جو ہم اکثر بزرگوں سے بھی سنتے
آ رہے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ہمارے روہی و چولستان کے مایہ ناز فنکار و معروف کہانیوں کے بے تاج بادشاہ استاد غلام حیدر خاں منگنہار (مرحوم) و دیگر سگھڑ حضرات ”قلعہ ڈیراور” کی کہانی یوں بیان کرتے تھے۔
روہی و چولستان سے ملحقہ انڈیا کے صوبہ راجستھان مارواڑ راجپوتانہ کے ضلع جیسلمیر کے قریب قدیمی شہر ”لیدر واہ” پہ راجہ بھوبھان پنوار راجپوت راج کرتا تھا وہ بیٹے جیسی نعمت سے محروم تھا کافی عرصہ بعد جب بیٹی رحمت بن کر گھر میں جنم لیا تو راجہ نےا پنے جیوتشیوں (نجومیوں) سے پوچھا کہ میرے بعد اس تخت و تاج کا مالک کون ہوگا؟ جیوتشیوں نے اپنی جیوتش کی کتابیں کھنگھالتے ہوئے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ جہاں پناہ !آپ کی شاہی کا مالک پنواروں کی بجائے بھاٹی خاندان میں سے ہوگا ۔ راجہ یہ حیرت زدہ بات سن کر آگ بگولہ ہوگیا اور حکم جاری کیا کہ تمام بھاٹی راجپوتوں کی نسل کو ہی ختم کیا جائے۔
نہ رہے گا بانس ۔ نہ بجے کی بانسری
قتل و غارت کا بازار ایسا گرم ہوا کہ خون کی ہولی سے ہر طرف بکھرتی لاشوں کے انبار لگنے لگے۔
مگر جسے رام رکھے اسے کون چکھے
اسی ظلم و زیادتی کو دیکھ کر بھاٹی سرداروں میں ”وینتی” نام کی عورت نے بھیس بدل کر اپنے پیٹ میں پلنے والے بچے کو بچانے کے لئے اپنے بھائی ”ججہ بھٹہ سولنکھی راجپوت کے پاس آ کر پناہ لی۔ کہتے ہیں یہ جگہ موجودہ “قلعہ ڈیراور” کے مغرب کی طرف صحابہ رسولؐ صاحبان کے درباروں کے پاس ٹھیڑ نما کھنڈرات میں تبدیل “ججہ بھٹہ،” کا قلعہ نما محل تھا۔
”وینتی دیوی” نے اپنے بھائی کو تمام حالات سے آگاہ کیا
تو بھائی نے کہا کہ بہنا! ………..چنتا مت کرو ہم اس ظلم کا بدلہ ضرور لیں گے، وینتی بدلے کی دہکتی آگ میں تیر ،تلوار و دیگر جنگی آلات کی ہر وقت کسرت کرتی رہتی تاکہ پیٹ میں پلنے والا بچہ جنگجو بن کر اپنے خاندان و بھاٹی قوم کا بدلہ لے سکے۔ وہ دن قریب آ گیا۔
ماموں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ۔ شاہی شادیانے بجنے لگے۔ مگر ،،وینتی،، نے شاہی بگل، ڈھول دمامے روک کر بھائی سے کہا۔ جب تک میرا لخت جگر جوان نہیں ہوتا تب تک یہ راز راز ہی رہے تو اچھا ہے ورنہ وہ ظالم ادھر حملہ کر کے نقصان پہنچائے گا۔ ،،،ڈیراور سنگھ بھاٹی،،، جب جوان ہوا تو ہتھیاروں سے لیس ہو کر شکار کھیلنے کے لئے نکلا تو موجودہ قلعہ جزیرہ نما جگہ کے درمیان جال کے درخت کے پاس عجیب نظارہ دیکھا کہ ایک بھیڑ نے بچے کو جنم دیا ہے اور پاس ہی خونخوار بھیڑیا جونہی بچے پہ لپکتا ہے تو آگ کے شعلے بھیڑ کے بچے کی حفاظت کرتے ہوئے بھیڑیئے پہ پڑتے ہیں تو وہ واپس پلٹ کر پھر حملہ آور ہو کر بچے کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ،،ڈیراور سنگھ،، نے یہ ماجرہ دیکھا تو حیران ہو گیا۔ بھیڑیئے کو مار کر جب اس جگہ کو کھودنا شروع کیا تو بیش بہا خزانہ نکلا کہتے ہیں یہ قیمتی خزانہ ‘سکندر اعظم’ نے پوری دنیا کے لوٹنے کا خواب دیکھ کر جو لوٹ کھسوٹ کی وہ خزانہ دریائے ہاکڑہ کی اس بیٹ نما جگہ کو محفوظ مقام سمجھ کر دبا دیا تھا تاکہ بعد میں نکال کر اپنے وطن لے جائے مگر سکندر ،،راجہ پورس،، کے لگے ہوئے تیروں کی ضرب سے سخت بیمار پڑ گیا اور بخار کی کمزور حالت میں واپس روانہ ہوگیا۔ جب ڈیراور سنگھ کو یہ قیمتی ہیرے جواہرات سونا چاندی کا خزانہ ملا تو اس نے اپنے ماموں ججہ سے کہا کہ ماموں ! مجھے بھینس کے چمڑے جتنی جگہ دو تاکہ میں علیحدہ رہ کر شکار کھیل سکوں۔ ماموں نے لاڈلے بھانجے کی بات مان لی۔
،،،ڈیراور سنگھ،،، نے گنڈھیر نامی موچی سے بھینس کے چمڑے کی باریک دھاگے جیسی ڈور بنوا کر موجودہ قلعے کی جگہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔( یہ میگھوال گنڈھیر خاندان آ ج بھی ڈیراور میں موجود ہے ) جب ججہ سنگھ نے گھیرا نما ڈور کی جگہ دیکھی تو بلبلا اٹھا اور وینتی سے شکوہ کیا تو بہن نے کہا۔
سنڑ ججہ وینتی کہہ بول نہ پاچھالے
کا بھٹے کا بھاٹیہ کوٹ اڈاون ڈے
وینتی نے کہا بھائی! قلعہ بھٹے کا بنے یا بھاٹی کا بات تو ایک ہی ہے۔ راجپوت قول کا پکا اور وعدے کا سچا ہوتا ہے، قول و اقرار سے پھرنا ایک راجپوت کا کام نہیں۔ اگر آپ کئے ہوئے وعدے پر قائم و دائم نہ رہے تو بدنامی ہوگی لوگ طعنے دیں گے۔ تاریخ میں بھٹوں کی وعدہ خلافی لکھی جائے گی۔ جگ ہنسائی ہوگی اور یہ سب باتیں مجھے جیتے جی مار کر زندہ لاش بنا دیں گی۔ ججہ بھٹہ نے کہا بہن!… ٹھیک ہے کئے ہوئے وعدہ کے مطابق یہ جگہ “ڈیوراؤ سنگھ،” کی ہوئی مگر ڈور سے باہر والی جگہ سے مٹی گارا اٹھانے نہیں دوں گا۔

تو “ڈیراور سنگھ” نے اوچ شریف کے راجہ سے بات کی خزانوں کا منہ کھول دیا اور تمام زیر تعمیر چیزیں اوچ سے لائی گئیں کہتے ہیں کہ ستر میل لمبی قطاروں کے ذریعے سے اینٹ پتھر گارا و دیگر سامان قطار در قطار سے لایا گیا اور 834ء میں یہ قلعہ تعمیر ہونے لگا جب جیسلمیر لیدر واہ کے راجہ بھوبھان کو علم ہوا تو لشکر بھیج کر “ڈیراور سنگھ” کو مارنا چاہا تو ڈیراور سنگھ بڑی عقلمندی اور چالبازی سے اونٹ پر سوار ہو کر “رتنا گر پنڈت” کے کھیت میں جا چھپا ، پیچھا کرنے پر پہچان نہ سکے اور لشکر واپس آ گیا جیوتشیوں نے کہا اے راجہ،
” دیو قامت ڈیوراؤ سنگھ” اب قلعے کا مالک بن چکا ہے۔ مضبوط فوج بنا کر بدلہ لے گا۔ پھر قتل و غارت کا بازار گرم ہوگا جس کے تمام تر ذمہ دار آپ کہلائیں گے۔ بھلا اس میں ہے کہ اپنی بیٹی کا رشتہ “ڈیراور سنگھ “سے طے کر لو بیٹی راج کریگی اور دشمنی بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ پھر ایسا ہی ہوا ۔ بیٹی کا ناریل بھیجا گیا۔ وینتی ، ججہ بھٹہ اور ڈیراور سنگھ کو پنڈتوں نے منت سماجت کر کے منالیا۔ شادی ہوگئی۔ ڈیراور سنگھ لیدروا اور ڈیراور شہر کا مالک بن گیا اور اسی طرح بھاٹیوں نے کئی قلعے آباد کئے۔
کاسی، متھرا، پراگ بھڑ، کسنیری، بھٹ نیر
ڈگم، ڈیراور، گڑھ گنجنی، نوووں جیسلمیر۔
ان نو مقامات پر بھاٹیوں نے حکومت کی۔ پنواروں سے رشتہ جوڑ کر ہمیشہ کے لئے دشمنی کو رشتے داری میں بدل کر پر امن راج کرنے لگے۔
1735ء تک یہ عظیم قلعہ 17 پشتوں تک ڈیراور سنگھ کے جانشینوں کے قبضہ میں رہا۔ بھاٹی جانشینوں نے تقریبا 900 سال تک جیسلمیر، بیکانیر، مروٹ، بجنوٹ، نواں کوٹ و دریائے ہاکڑہ کے کنارے بسے ہوئے شہروں پر حکومت کی، 1735ء میں نواب صادق محمد اول نے گورگیج خیرے خاں کی مدد سےقلعہ پر قبضہ کرلیا تو بھاٹی شاہی خاندان سمیت جیسلمیر تک لمبی سرنگ کے ذریعے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر “راول رائے سنگھ” کو قید کر لیا گیا ۔ نواب صاحب نے پچاس روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کر کے قلعہ میں رہنے کی اجازت دے دی تاکہ خفیہ ٹھکانوں ، راز دار سرنگوں کے ذریعے خزانہ حاصل کر سکیں۔ یاد رہے کہ یہ مذکورہ وظیفہ 1833ء تک رائے سنگھ کی اولاد بھوم سنگھ تک یہ وظیفہ جاری رہا ۔ بھوم سنگھ کی اولاد ریاست جئے پور چلی گئی اور بعد میں بھی گاہے بگاہے نوابوں سے ملتے رہے عزت و احترام و انعامات سے نوازے جاتے ۔ اس قلعے کے 40 خوبصورت برج ہیں ہر برج کا نقشہ مختلف ہے۔ ان برجوں پر فوجی چوکیاں ہوتی تھیں۔ یہ شاندار مورچے اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ جن سے تیر تلوار، توپ کے گولوں و پتھروں کے علاوہ گرم پانی سے حملے کئے جاتے، اس کے بیش بہا خفیہ تہہ خانوں کے علاوہ ہر راجدھانی سے ملانے والی لمبی سرنگیں تھیں جس کا نقشہ آج تک نہیں مل سکا۔ کیوں کہ جب نواب نے قلعہ فتح کیا تو قلعہ دار کو کہا کہ مجھے خزانہ دکھاؤ تو وہ بھول بھلیوں سرنگوں سے ہوتا ہوا سات منازل پر مشتمل تہہ خانے میں لے گیا تو قیمتی خزانوں کا انبار دیکھ کر نواب حیران رہ گیا اور تلوار کے وار سے قلعہ دار کا خاتمہ کرنا چاہا تو اس نے کہا نواب صاحب !مجھے مارنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ ان خفیہ تہہ خانوں کی سرنگوں سے آپ نکل کر واپس زندہ نہیں جا پاؤ گے۔ نواب نے کافی کوشش کی مگر ہر بار سرنگ میں الجھ جاتا تب قلعہ دار کی منت سماجت کرتے ہوئے واپس نکلا تو قلعہ دار سے چابیوں کا گچھا چھیننے اور تہہ خانوں کا نقشہ حاصل کرنے کے لئے قلعہ دار
کے پیچھے دوڑے تو قلعہ دار نے چابیاں ہوا میں لہراتے ہوئے مشرقی تالاب میں پھینک کر لمبی فصیل سے کود کر جان دے دی۔ اور آج تک نہ وہ چابیاں ملیں اور نہ ہی وہ نقشہ مل سکا۔
کہتے ہیں کہ اگر وہ سات منازل پر مشتمل تہہ خانوں والا خزانہ مل جائے تو ہمارا وطن پوری دنیا میں امیر ترین ملک کہلائے گا۔ مگر اس خزانے پر دیو مالائی روحوں اور اژدہ نماشیش ناگ کا پہرہ ہے۔ جسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ نواب نے پرانے محلات کی تمام بنیادیں اکھاڑ پچھاڑ کر کوشش کی مگر بے سود ۔ موجودہ قلعے کے اندر تمام بلڈنگز نواب صاحب نے نئی طرز تعمیر کرکے بنوائیں۔ جن میں شاہی محلات ، زنان خانہ، مہمان خانہ ، اسلحہ خانہ، رنگ محل، جیل خانہ، پھانسی گھاٹ، و دیگر خوبصورت کھنڈرات میں بدلی بھوت بنگلہ دکھائی دیتی ہیں۔ جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
ہر عمارت میں چمگادڑوں کا بسیرا ہے۔ یہ اجڑا ہوا قلعہ نواب کے دور حکومت میں خوبصورت قلعہ تصور کیا جاتا تھا۔ ڈیراور شہر تجارتی منڈی تھا۔ پر رونق بازار میں دیش ودیش کے تاجر تجارت کرتے ہوئے قافلوں کی صورت میں جوق در جوق کھنچے چلے آتے۔ آج وہ شاندار پر رونق بازار کھنڈرات میں بدل چکے ہیں۔ قلعے کے باہر خوبصورت فصیل تھی جو اب معدوم ہو چکی ہے۔ فصیل کے باہر شہر آباد تھا۔ جس میں شاہوکاروں، امراء و تاجروں کی شاندار حویلیاں تھیں۔ جنوبی پرانی دیوار کے پاس خوبصورت شو مندر ہے جہاں ہر سال شو راتری منا کر پوجا پاٹ کی جاتی تھی مگر اب یہ مندر دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے گورنمنٹ و اقلیتی ممبران اس قدیمی مندر پر خصوصی توجہ دے کر اس کی تعمیر و تزئین میں اہم کردار ادا کر کے گرانٹ مہیا کریں تاکہ یہ مندر سیاحوں اور ہندوؤں کی توجہ کا مرکز بن کر مذہبی ہم آہنگی کا ثبوت پیش کر سکے۔ 1947ء میں کاروباری تاجر ہندو انڈیا چلے گئے۔ مگر غیر مالدار چرواہے اس دھرتی کے اصل وارث دراوڑی نسل کے میگھوال ، بھیل، بالمیکی، باوریہ ہندوؤں نے اپنی جنم بھومی کو نہیں چھوڑا۔ آج بھی یہ مزدوری پیشہ و چرواہے ڈیراور و دیگر چولستانی علاقوں میں موجود ہیں۔ جو نوابوں کے زیر سایہ رہ کر پر امن طریقے سے جی رہے ہیں۔ شاہی درباروں کے پاس جین مت پیروکاروں کے گرو جی دادا کشل گرو کی سمادھی تھی جسے ٹھیڑ مندر کہتے تھے۔ اب وہاں سٹیج نما تھڑا بنا ہوا ہے۔ جہاں ہر پونم کو بھگتی پروگرام سجایا جاتا ہے۔
قلعہ کی تمام تاریخی عمارات قابل دید ہیں۔ مین گیٹ ، داخلی دروازہ، شاہی مسجد، صحابہ کرام کی مزارات، شاہی مزارات، کے علاوہ ہندوؤں کا راما پیر مندر، تکیہ روشن فقیر، تکیہ تاج محمد سئیں اجڑی حویلیاں ، چولستانی گھر، جھونپڑے، روہی کے ٹیلے، ٹوبھے تالاب، جانوروں کے ریوڑ، خوش مزاج ملنسار لوگ، ہنس مکھ چہرے، مہمان نواز نوجوان، بزرگ، دل کے سچے مخلص ڈیراوری دوست، چرند پرند، و دیگر تمام جاندار و بے جان چیزیں قابل دید و قابل تعریف ہیں۔ مگر ہمارے پاس و ہ الفاظ نہیں جن سے ہم صحرائے چولستان و اس قلعہ کی تعریف کر سکیں جب آپ حضرات وزٹ کریں گے تو پرسکون ماحول پا کر قلبی سکون میسر کریں گے۔ اس کے علاوہ ہر سال 9 تا 13 فروری کو چولستان جیپ ریلی منعقد کی جاتی ہے۔ ملک بھر سے شائقین حضرات حصہ لے کر انجوائے کرتے ہیں۔ جس میں شاندار محفل موسیقی، ادبی و کلچرل رنگا رنگ پروگرامز، بائیک ریس جیپ ریس ، اونٹ ریس و دیگر کھیلوں کے شاندار ایونٹ ہوتے ہیں۔ قلعہ کو دلہن کی طرح سجا کر ، آتش بازی کا نظارہ قابل دید ہوتا ہے۔ اس عظیم قلعے کے مالک نواب صلاح الدین عباسی ہیں جو نواب ہوتے ہوئے بھی فقیرانہ طبیعت کے مالک، درویش صفت، غریب پرور، اور سخی ہیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے دوسری تحریر ۔ ڈاکومینٹری میں پوری تفصیلات بیان کریں گے۔ اس تحریر ۔ کو لائیک ، سبسکرائب اور کمنٹس کریں تاکہ دوسری تحریر اور ویڈیو جلد جاری کر سکیں۔
شکریہ ۔دھنیواد
آ پ کا داس(غلام)
پریتم داس بالاچ امان گڑھ رحیم یار خان چولستان

3 تبصرے “صحرائے چولستان کے عظیم قلعہ ڈیراور کی سچی کہانی۔

  1. Thanks a lot for sharing this with all people you really realize what you are speaking approximately! Bookmarked. Kindly also consult with my website =). We will have a link exchange agreement between us I saw similar here: sklep internetowy and also here: sklep

  2. Good day I am so grateful I found your site, I really found you by accident, while I was researching on Bing for something else, Nonetheless I am here now and would just like to say thank you for a incredible post and a all round entertaining blog (I also love the theme/design), I don’t have time to look over it all at the minute but I have bookmarked it and also included your RSS feeds, so when I have time I will be back to read more, Please do keep up the great job. I saw similar here: Sklep internetowy

اپنا تبصرہ بھیجیں