🔷 نیکی اور بدی کا اجر 🔷

اللہ کتنا کریم ہے کہ نیکی پر کئی گُنا بڑھا کر ثواب دیتا ہے اور گناہ ایک ہی لکھتا ہے۔

🔹 ارشاد باری تعالٰی ہے:
“مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا ۚ وَ مَنۡ جَآءَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجۡزٰۤی اِلَّا مِثۡلَہَا وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ۔” (سورہ انعام:160)
ترجمہ:
جو (اللہ کے پاس) ایک نیکی لے کر آئے گا اسے دس گنا (اجر) ملے گا اور جو برائی لے کر آئے گا اسے صرف اسی برائی جتنا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

یہ خدائے رحمٰن و رحیم کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک نوید ہے، ایک عظیم احسان ہے، جس نے رحمت کو اپنی ذات پر لازم قرار دیا ہے۔

“کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ۔۔۔۔” (سورہ انعام: 54)
ترجمہ:
تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔

وہ ایک نیکی کا کم سے کم دس گنا اجر دے گا اور گناہ کی صورت میں صرف ایک بدلہ دیا جائے گا۔ ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر اجر دینے سے مراد کمترین درجہ کی بات ہے کہ ایک نیکی کا اجر دس گنا سے کم نہ ہو گا، زیادہ اجر کی حد بندی نہیں کی گئی مثلاً راہ خدا میں خرچ کرنے کی نیکی کے بارے میں فرمایا:

“مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔” ( سورہ بقرۃ: 361)
ترجمہ:
جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اگ آئیں۔ جن میں سے ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے عمل) کو چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے، اللہ بڑا کشائش والا، دانا ہے۔

اس آیت میں ایک دانہ جو راہ خدا میں خرچ ہوتا ہے، سات سو دانوں کے برابر اور اسے دگنا کرنے سے ایک نیکی چودہ سو کے برابر بتائی گئی ہے اور صبر کی نیکی کے بارے میں تو فرمایا:

“اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوۡنَ اَجۡرَہُمۡ بِغَیۡرِ حِسَابٍ۔” (سورہ زمر: 10)
ترجمہ:
یقینا بے شمار ثواب تو صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا۔

🔹 مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ:
جو اللہ کے پاس نیکی لے کر آئے۔ جب وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا تو نیکی اس کے پاس ہو گی۔ اس سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ نیکی بجا لانا کافی نہیں ہے، قیامت کے دن اللہ کے حضور نیکی لے کر حاضر ہو۔ چونکہ بعض اوقات ایک لغزش سے ساری نیکیاں اکارت جاتی ہیں۔ چنانچہ سورہ حجرات میں فرمایا:

“یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ۔” (سورہ حجرات: 2)
ترجمہ:
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو۔ جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو۔ کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

🔹حضرت ابوذر روایت کرتے ہیں کہ رسولخداؐ نے فرمایا:
إِنّ اللہ تعالی قال: الحسنۃ عشر أو أزید، والسیِّئَۃُ واحدۃ، أو اغفر، فالویل لمن غلبت آحادہ أعشارہ ۔ (مجمع البیان۔ ذیل آیہ۔ تفسیر کبیر 11، 43۔ سورۃ النساء، تفسیر نیسابوری 3: 380۔ عون المعبود 7: 78 عیادۃ النساء۔)
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایک نیکی کا دس گنا یا زیادہ اجر رکھا ہے اور گناہ کو ایک ہی رکھا ہے یا اسے بھی بخش دوں گا۔ افسوس تو ان لوگوں پر ہے جن کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آ جاتی ہیں۔

🔹 حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرمایا کرتے تھے:
ویل لمن غلبت احادہ اعشارہ۔ (معانی الاخبار، ص 348۔ الوسائل، 16: 103)
ترجمہ:
افسوس ان لوگوں پر جن کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آ جاتی ہیں۔

🔘 اہم نکات
1۔ نیکی کا اجر لاتعداد اور گناہ کا بدلہ عفو کے ذریعے صفر ہو سکتا ہے۔ یہ ہے مقام ارحم الراحمین۔

2۔ نیکی لے کر آئے، صرف انجام دنیا کافی نہیں ہے۔ چونکہ بعض اوقات اعمال حبط ہو جاتے ہیں۔

📚 الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 3، صفحہ 171۔

اپنا تبصرہ بھیجیں