دِل جل رہا تھا غم سے ، مگر نغمہ گر رہا

‏دِل جل رہا تھا غم سے ، مگر نغمہ گر رہا
جب تک رہا میں، ساتھ میرے یہ ہُنر رہا

صُبحِ سفر کی رات تھی ، تارے تھے ، اور ہَوا
سایہ سا ایک دیر تلک ــــــــ بام پر رہا

میری صدا ہَوا میں بہت دُور تک گئی
پر مَیں بُلا رہا تھا جِسے ، بے خبر رہا

گُزری ہے کیا مَزے سے خیالوں میں زندگی
دُوری کا یہ طلسم ــــــــ بڑا کار گر رہا

خَوف آسماں کے ساتھ تھا سَر پر جُھکا ہُوا
کوئی ہے بھی یا نہِیں ہے یہی دِل کو ڈر رہا

اُس آخری نظر میں عجب دَرد تھا مُنیرؔ
جانے کا اُس کے رَنج مُجھے عُمر بھر رہا

اپنا تبصرہ بھیجیں