مہمان : تنویر احمد ، ڈائریکٹر کیو ایچ ایس ای

تنویر احمد نے کنسٹرکشن، پروڈکشن، مینوفیکچرنگ، ری سائیکلنگ، اور آئل اینڈ گیس انڈسٹریز میں 30 سال کا وقت گزارا ،جس میں انہوں نے IMS بیک گراؤنڈ کے ساتھ، QHSE فیلڈ میں لیول I اور II-TTT سرٹیفائیڈ ٹرینر کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دیں۔اور ان دنوں آپ کمپنی شب الجزیرہ میں بطور ڈائریکٹر کیو ایچ ایس ای کام کر رہے ہیں ۔
ان تیس سالوں میں تیل اور گیس پیدا کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک آرامکو کے ساتھ اپنی تجرباتی زندگی کے بیس سال گزارے ۔آپ نے مختلف قسم کی سرگرمیاں انجام دی ہیں جن میں بڑے پیمانے پر منصوبوں کے لیے QHSE نظام کی ترقی، فیصلہ سازی، تجزیہ، اور مسئلہ حل کرنے کی شاندار صلاحیتیں شامل ہیں ۔ اپنے کیریئر کے دوران، آپ نے اپنی دوستانہ کام کی عادات، کلائنٹس کی پر اعتمادی، اور ٹائم لائنز کو پورا کرتے ہوئے اپنا نام پیدا کیا

ڈائریکٹر کیو ایچ ایس ای ، تنویر احمد کی ذمہ داریوں میں ٹیم بنانا ان سے اچھے طریقے سے کام لینا شامل ہے ،آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے آپ اور آپ کی ٹیم کمپنی میں اپنا نمایاں مقام رکھتی ہیں ۔۔آپ پروڈکشن سے سپلائی تک تمام مراحل کو بر وقت سر انجام دیتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں۔ آپ نے اوور سیز کے لئے بھی کافی سرگرمیاں متعارف کروائی اس کے علاوہ پاکستانی قومی دن کی مناسبت سے ہر سال تقریبات کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ اوور سیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل اور انکا کیا حل ہے ؟آئیے ان سے جانتے ہیں

1. پاکستان کی آزادی کو پچھتر سال ہوگئے لیکن اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل وہی کے وہی ہیں حکومتیں آئیں حکومتیں بدلیں مارشل لاء بھی آئے بڑے وعدے ہوئے لیکن مسائل کا حل نہیں ہوا آپ کے خیال میں اسکی وجہ کیا ہے؟
میرے خیال میں اسکی بڑی وجہ حکومتوں کی عوامی مسائل کی طرف سے غفلت اور ذاتی مفاد کو ترجیح ہے۔ ہماری کسی بھی حکومت نے ان مسائل کو بھی سمجھا ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں جبکہ حکمرانوں کی ترجیحات ذاتی جائیدادیں بنانے اور خود کو خوشحال بنانا ہے
2. دیار غیر میں خون پسینہ ایک کرنے والے اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضے ہو جاتے ہیں ریاست کب ماں کے جیسے کا برتاؤ کریگی ؟
اس کے لئے ایماندار، منصف اور عوام کے لیے درد رکھنے والا لیڈرچا ہےئ ۔ جب تک ہم کرپٹ اور ماےد پرست حکمران طبقے سے چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتے تب تک پاکستان کے اندر اور باہر دونوں جگہ پر بسنے والے عوام کے حقوق کا تحفظ غیر یقینی ہے۔کسی بھی ملک کا سفیر دوسرے ملک میں اپنی عوام کے لیے بطور حکومتی نمائندہ کام کرتا ہے۔ سفیر اور سفارت خانے کے تمام اراکین بغیر حکومتی توجہ اور اسرار کے کبھی بھی عوامی مسائل پر فوکس نہیں کر سکتے اسکی وجہ یہی ہے۔ کہ حکومتی ادارے حکومت کی ترجیح نہیں ہیں۔ حکومت کا کام ہے کہ اپنی اور اپنے اداروں کی کار کردگی کو بہتر بنا کر عوام کو ریلیف دے جیسا کہ عمران خان صاحب کے دور حکومت میں ہم نے اور دوسرے بہت سے لوگوں نےسیٹیزن پورٹل پر اپنی شکایات رجسٹر کروائی اور ہمیں ان کے بہت ملے۔مثبت جواب ملے۔
اس پورٹل کے ذریعے عوام کو انکی جائیدادوں سے ناجائز قبضے چھڑوا کر ان کی جائیدادیں ان کے حوالے کی گئیں ۔ تو اس طرح سے دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کے بہت سے مسائل حل ہوئے اور یہ ایک بہترین پلیٹ فام تھا۔ میرے خیال میں اسے جاری رکھنا چاہیے تا کہ عوام کو بھی کچھ تسلی اور ان کا اعتماد بحال ہو سکے

3. چھوٹے چھوٹے گناہوں کی اوور سیز کو عمر بھر بیرون ملک جیلوں میں سزائیں ملتی ہیں سفارتخانے کب دکھی پاکستانیوں کی آواز بنیں گے ؟
جیسا کہ میں نے آپ کے پچھلے سوال میں بتایا کہ سفارت خانے اسی وقت متحرک ہو سکتے ہیں جب ہماری حکومت عوام کے مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کے لیے سنجیدہ ہو ں ۔ہمارے اپنے ملک کے اندر لاکھوں بے گناہ لوگ جیلوں میں سالوں سے بند ہیں اور کوئی ان کی پکار نہیں سنتا بلکہ امیر کھلم کھلا جرم بھی کرتے ہیں اور انہیں سزا بھی نہیں ملتی اس کی وجہ انصاف پسندی کا نہ ہونا ہے۔ بد قسمتی سے ہمیں ایسے حکمران ملے ہی نہیں جوقانون کی بالا دستی کو قائم کر سکیں یہی وجہ ہے کہ ہم ملک میں بھی اور ملک سے باہر اوورسیز پاکستانیوں کو ان کے مسائل سے نجات دلا سکتے ۔قانون کی بالا دستی ہی ان مسائل کا حل ہے اور اسکے لئے ایماندار اور منصف حکمران ضروری ہیں۔

4. جب بھی الیکشن آتے ہیں تو اوورسیز پاکستانیوں کی گونج اسمبلیوں سے لیکر میڈیا تک سنائی جاتی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق ملنا چاہیے جب پاکستانی غیر ملکی پا رلیمنٹ میں جا سکتے ہیں تو اوورسیز پاکستانی جوکہ کروڑوں روپے زرمبادلہ بھی دیتے ہیں پاکستان کے عوام کو پیسہ بھی دیتے ہیں انکو کیوں حق نہیں دیا گیا کہ کم از کم دس سیٹیں اوورسیز پاکستانیوں کی اسمبلی میں ہونی چاہئے تاکہ انکے مسائل حکومت پاکستان کے اندر ہی حل کرے۔پاکستانی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے اوورسیز پاکستانیوں کوووٹ کا حق دیکر کب اپنایا جائے گا؟
اور سیز پاکستان پوری دنیا میں پاکستان کی آواز ہیں ۔ جو پاکستان سے دور رہ کر پردیس میں بھی اپنے ملک، اپنے خاندان کے لئے خون پسینہ بہاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ملک کے سفیر ہیں اور یہی لوگ پردیس میں اپنی حکومت کی بے توجہی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے طبقے ہیں شامل ہیں۔ ان کے مسائل بھی جوں کے توں ہیں جب ان کے بنیادی مسائل پر کوئی توجہ کسی بھی حکومت کے منشور میں شامل نہیں تو ہم یہ کیسے توقع کریں کہ ووٹ جیسا اہم حق ہمیں مل سکتا ہے۔ عمران خان صاحب کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ اور رسیزپاکستانیوں کے دوسرے مسائل پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے پر بھی توجہ دی گئی اور باقاعدہ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری دے کر یہ حق اوور سیز پاکستانیوں کو دیا گیا تا کہ وہ ووٹ ڈال کر اپنی اور اپنی قوم کے بہتر مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

5. اوورسیز پاکستانی قیمتی اثاثہ ہیں ، ڈائیلاگ سے ہٹ کر عملی طور پر مسائل کا حل کب اور کیسے ممکن ؟
اوور سیز پاکستانیوں کے مسائل تومل ہو سکتے ہیں بشر طیکہ ان پر توجہ دی جائے ۔ ہمارےسفارت خانے اس کے ذمہ دار ہیں یہ تمام اوور سیزپاکستانیوں کے لیے دیار غیر میں پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے دوسرےاداروں کی طرح سفارت خانے اور ہمارے سفیر اپناموثر کردار ادا نہیں کر رہے۔ ۔ نہ ہی حکومت کی طرف سے ان پر کوئی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ بلکہ ہمارے سفیر اورسفارت خانے کے عملے کے لوگ عام دفتری معاملات میں بھی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔ ہمارے سفیر صاحب اور سفارتی عملہ جب تک سنجیدگی سے عوام کے مسائل کو سمجھے گا نہیں ان کا حل ممکن نہیں۔اس کے لیئے حکومت کو چاہیے کہ موثر پرو ایکٹو اورمخلص سفیروں کو متعین کر کے عوام کے لیے سہولت پیدا کی جائے اور اپنا کام نہ کرنے والوں کا احتساب
کیا جائے دیکھا جائے کہ انھوں نے اپنی کمیونٹی کے لیے کیا کردار ادا کیا ہے ۔

6. اوورسیز پاکستانیوں پر بیرون ملک پر حملے اور اسلاموفوبیا کیخلاف بڑھتی ہوئی روش ،،اقوام عالم کو سدباب کیلئے کیسے قائل کیا جائے ؟
کسی بھی ملک کا لیڈر اس ملک کا نمائندہ ہوتا ہے۔اور نہ صرف اس قوم کی تقدیر اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔بلکہ یہ اس قوم کے بہتر مستقبل کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ ہر لیڈر کا ایک اپنا امپریشن بھی ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے ہم اس بڑی نعمت سے محروم ہیں۔ ہمارے
لیڈر 70 سالوں میں ہمیں بحیثیت ایک پاکستانی قوم کے یہ ثابت نہیں کر سکے کہ ہم ایک ذمہ دار ، خودداراور غیرت مند قوم ہیں ۔ یہ کردار اگر بحیثیت لیڈر اوربحیثیت ایک حکمران نے اگر ادا کیا ہے تو وہ صرف اورصرف عمران خان صاحب ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف ہمارے پاسپورٹ کی قدر بڑھی ہے۔
بلکہ پاکستان کے وقار میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ ان کی مردانہ وار کاوشوں اور بہترین حکمت عملی کی وجہ سے 15
مارچ کو پوری دنیا میں اسلامو فوبیا کے لیے نہ صرف یہ دن مقررکر دیا گیا ہے بلکہ تمام مسلمانوں اور پاکستانیوں کا سر
فخر سے بلند ہو گیا ہے یہی وجہ ہے کہ عمران صاحب کےاقوام متحدہ میں خطاب کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نئی قوت و طاقت ملی ہے اور اب لوگ اسلام کےخلاف بات کرتے ہوئے نہ صرف ڈرتے ہیں بلکہ آزادی رائے
کے غلط اظہار کے سہارے لے کر ہمارے پیارے نبی ﷺکی شان میں گستانی سے بھی ڈرتے ہیں اور الحمد لله یہ صرف ایک بڑے نڈر اور غیرت مند حکمران ہی کی ہمت اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

7. پاکستانی سفارتخانے اوورسیز کے مسائل حل نہیں کرتےنہ لوکل سطح پر اور نہ بین الاقوامی سطح پر اور نہ ہی پاکستان سطح پر… اسکی وجہ کیا ہے ایسا کیوں؟
میرے خیال سے پاکستان کے سفارتی تعلقات میں بہتری کی کافی گنجائش موجود ہے ۔ ہماری حکومت اور خارجہ پالیسی میں بہت سی ترامیم اور نظر ثانی کی ضرورت ہے۔پاکستانی عوام اور پراڈکشن کو انکا حق نہیں دیا جارہا۔ ہمارے ملک میں جتنا پوٹینشل ہے اس کی اتنی قدر نہیں کی جارہی اگر اسی طرح چلتا رہا تو دنیا کے بہت سارے ممالک ہمارے ہم سے تجارت کرنے سے پہلے سوچیں گے
8. اوورسیز پاکستانی دنیا میں پاکستان کے سفیر ہیں،پاکستان کے روشن چہرے کے پہلو کو مزید کیسے اجاگر کرسکتے ہیں؟
پاکستانیوں کا سب سے اہم مسئلہ غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونا ہے ،جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی کمیونٹی میں بھی انہیں شرکت کرکے اس ملک کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ڈنکی لگا کر بیرون ملک جانا اور حوالہ ہنڈی کا استعمال کرنا انتہائی غلط اقدام ہے ہمیں مثبت سوچتے ہوئے دوسرے ممالک میں اپنی اور پاکستان کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے

9. پاکستان کا جو سیاسی ماحول ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی جو تقسیم ہوئی ہےاس نے بہت ذیادہ اوورسیز پاکستانیوں کو ہی نقصان دیا ہے( تقسیم سے مراد ہے جب سیاسی ہمدردیاں بدلی گئیں اور جب حکومتیں آئیں تو انہوں نے اپنے بندوں کو مراعات تو دے دیں لیکن دوسری جماعتوں کے اوورسیز پاکستانیوں کو مراعات سے محروم کر دیا)مختلف سیاسی جماعتوں نے مختلف اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو کبھی بھی حل نہیں ہونے دیا اسکو ہم مفادات کی سیاست بھی کہہ سکتے ہیں ایسا کیوں ہوا؟
دراصل ہمارے سیاست دان اپنی ذاتی لڑائیوں میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔۔ہمارے سیاست دانوں کو چاہئے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے درمیان سیاسی اختلاف پیدا کرنے کی بجائے انہیں اپنے اور بیرون ملک مقیم عوام کی ترجیحات کا خیال رکھنا چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق اوورسیز کو مراعات دیں اور مختلف سزاؤں پر قید پاکستانیوں کو قونصل خانے تک رسائی دی جانی چاہیے اور انکے ساتھ ناروا سلوک اور لوٹ مار بند ہونا چاہیے

مہمان : تنویر احمد ، ڈائریکٹر کیو ایچ ایس ای” ایک تبصرہ

  1. I see You’re truly a excellent webmaster. This site loading pace is amazing. It kind of feels that you are doing any distinctive trick. Moreover, the contents are masterwork. you have done a magnificent process in this matter! Similar here: najtańszy sklep and also here: Sklep online

اپنا تبصرہ بھیجیں