ڈاڑھی منڈوانا

منجملہ غیر اسلامی رسموں کے ایک مردوں کا ڈاڑھی منڈوانا اور مونچھیں بڑھانا بھی ھے. فقہ جعفریہ میں ڈاڑھی منڈانے کی حرمت اور مونچھیں بڑھانے کی کراھت شدیدہ میں کوئی اختلاف نہیں ھے اور یہ کہ ڈاڑھی منڈوانا مجوسیوں کا طریقہ ھے.
اسلام کے اندر اس فعل شنیع کی کوئی گنجائش نہیں ھے.

■پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مجوسی داڑھی مونڈتے ہیں اور مونچھیں بڑی رکھتے ہیں. اور ہم اس کے برعکس.
(وسائل الشیعہ: ج 1 ص421)
●مونچھیں چھوٹی رکھو اور داڑھی بڑی رکھو.
(وسائل الشیعہ ج1 ص423)
●داڑھی مونڈنا ایک مثلہ کی قسم (جسم و روح کو اذیت دینا) ہے. اور جو بھی اس طرح کرے اس پر خدا کی لعنت ہو.
(مستدرک الوسائل ج1 ص406)
●داڑھی مونڈنا عمل قوم لوط میں سے ہے.
(مستدرک الوسائل ج1,ص407)

■کسریٰ (شاہ ایران) نے چند داڑھی چٹ اور مونچھیں دراز قسم کے نمائندے دربار رسالت میں بھیجےـ مگر خلق عظیم کے مالک نے ان سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا اور دریافت فرمایا:
“تمہیں یہ ہیئت و شکل اختیار کرنے کا کس نے حکم دیا ھے؟”
انہوں نے کہا:
ھمارے بادشاہ (کسریٰ) نے.
یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ و علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:
لیکن میرے بادشاہ (خدا تعالیٰ) نے مجھے ڈاڑھی رکھوانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم دیا ھےـ
(من لا یحضرہ الفقیہ)

●امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
خداوند متعال نے مَردوں کو داڑھی کے ذریعے زینت بخشی ہے اور ان کے لئے باعث فضیلت ہے اور داڑھی کے ذریعے مرد پہچانے جاتے ہیں.
(سفینۃ البحار، ج2، ص:508)

●حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
گذشتہ زمانے میں کچھ گروہ داڑھی مونڈتے تھے اور مونچھیں رکھتے تھے خداوند متعال نے ان کو مسخ (جانوروں کی شکل میں تبدیل) کردیا.
(حلیۃ المتقین، ص:187)

●عالم ربانی حضرت علامہ شیخ یوسف بحرانی نے لکھا ھے کہ دوسری دلیلوں سے قطع نظر کرتے ھوئے صرف یہی چیز اس کی حرمت مغلظہ ثابت کرنے کے لیے کافی و وافی ھے کہ زنا جیسے سنگین جرم کی وجہ سے کوئی قوم مسخ نہیں ھوئی مگر ڈاڑھی منڈوانے کی وجہ سے ایک قوم مسخ ھو چکی ھے.
چنانچہ اصول کافی میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ درج ھے کہ
■جناب امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ظاھری دور خلافت میں کوفہ کے بازار میں بے چھلکا مچھلی (جسے ملی مچھلی کہا جاتا ھے) بیچنے والوں کو کوڑے لگائے اور یہ کہہ کر بازار سے نکال دیا کہ
“یا بیاعی مسوخ بنی اسرائیل و جند بنی مروان.”
اے بنی اسرائیل کی مسخ شدہ مخلوق اور لشکر بنی مروان کے بیچنے والو!

حاظرین میں سے بعض نے عرض کیا کہ بنی اسرائیل کی مسخ شدہ مخلوق سے آپ کی مراد کیا ھے؟
فرمایا: “یہ ایک قوم تھی جس کا جرم یہ تھا کہ ڈاڑھیاں منڈواتے تھے اور مونچھیں بڑھا کر ان کو تاؤ دیتے تھے جنہیں خداۓ قہار نے اس شکل میں مسخ کر دیا.”

■بعض اخبار سے واضح و آشکار ہوتا ھے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس شخص نے ڈاڑھی ترشوائی وہ امیر شام تھا،
(تنبیہ الغافلین)
اور جس نے سب سے پہلے مونچھیں بڑھائیں وہ حضرت ثانی تھے.
(الفاروق شبلی)
اور جس نے پہلے پہل ڈاڑھی منڈوائی وہ یزید پلید تھا.
ان حقائق کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ھے کہ جو لوگ باریک ڈاڑھی کتراتے ھیں وہ امیر شام کی سنت پر،
جو منڈواتے ھیں وہ یزید عنید کے طریقہ پر،
اور جو مو نچھیں بڑھاتے ھیں وہ حضرت ثانی کے نقش قدم پر چل رھے ھیں.
کیا زبان و کلام سے محبت اھلبیت علیہم السلام کا دعویٰ کرنا اور عمل و کردار سے دشمنان اھلبیت علیہم السلام کی پیروی کرنا ایک شرمناک بات نہیں ھے؟

■مسلمانوں کا قطعی رویہ:
رسول اللہ (ص) کے دور سے اب تک دیندار لوگ داڑھی رکھنے کے پابند ہیں اور جو داڑھی مونڈھتا ہے اس کی مذمت کرتے آئے ہیں اور اس کو فاسق سمجھتے ہیں اور اسلامی عدالت میں بھی گواہی دینے کے لئے داڑھی رکھنا ضروری ہے کیونکہ داڑھی مونڈھنے والے شخص کو فاسق سمجھا جاتا ہے اور اس کی گواہی قابل قبول نہیں سمجھی جاتی۔ یعنی عادل ہونے کی ایک شرط داڑھی رکھنا ہے اور گواہی کے لئے عدالت شرط ہے.
(آيت اللَّه العظمی سید ابوالقاسم خوئى، مصباح الفقاهة، ج 1، ص 264)

■مراجع تقلید اور علمائے کرام:
مراجع تقلید اور علمائے کرام نے بھی داڑھی مونڈھنا حرام قرار دیا ہے یا کم ازکم فرمایا ہے کہ “احتیاط واجب” یہ ہے کہ داڑھی رکھی جائے اور احتیاط واجب ترک نہیں کی جاسکتی.

■ڈاڑھی کی مقدار:
چہرے پر اتنی مقدار میں ڈاڑھی رکھنا واجب ہے کہ عرف عام میں اسے ڈاڑھی کہا جا سکے یعنی جب لوگ اس کے چہرے کو دیکھیں تو ان کو خود بخود معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص کے ڈاڑھی ہے. نہ کہ ایسا معلوم ہو کہ شیو بڑھی ہوئی ہے یا خود بتانا پڑے کہ میں نے ڈاڑھی رکھی ہوئی ہے.
یہ بھی یاد رہے کہ ایک ہاتھ یعنی مٹھی بھر سے زیادہ لمبی ڈاڑھی بھی نہ ہو یعنی سکھوں کی طرح بلکہ جتنی مقدار میں مراجعین عظام کی ہے اتنی مقدار رکھنا زیادہ ثواب رکھتی ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں