کوس مینار

یہ کوس مینار لاریکس کالونی گڑھی شاہو میں کراچی پھاٹک کے قریب واقع ہے۔
ماضی میں کوس مینار مسافروں کی رہنمائی کے لیے بنائے جاتے تھے۔ تاکہ وہ اندازہ کرسکیں کہ وہ درست سمت کی جانب گامزن ہیں یا نہیں۔ لوگ ان میناروں کی گنتی کے تناسب سے فاصلے اور جگہوں کا تعین کرتے تھے۔

رہنمائی کے لیے بنائے جانے والے ایسے میناروں کی تاریخ کافی قدیم ہے۔ جب کہ ہند میں بھی یہ ایسے مینار مغل عہد سے قبل سے چلے آ رہے ہیں۔ شیر شاہ سوری کے دور میں شاہراؤں کی مرمت و مسافروں کی سہولت کے لیے کئی ایک اقدامات کیے گئے۔ رضا علی عابدی صاحب نے اس حوالے سے قابل قدر تحقیق کی ہے، وہ لکھتے ہیں “شیر شاہ کو سڑکوں کی اتنی پروا نہیں تھی، جتنی سڑکوں پر چلنے والے مسافروں، تاجروں اور قافلوں کی فکر تھی۔ اس نے مسافروں کو راہ دکھانے والے کوس مینار بنائے، جن پر رات کو آگ روشن کی جاتی تھی تاکہ رات کے مسافروں کو بھٹکنے کا خوف نہ ہو۔

اس نے ہر کوس پر سرائے بنائی جس میں نہ صرف مسافروں کی بلکہ ان کے سواری کے جانوروں اور مویشی کی بھی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔” نیز ابو الفضل نے اکبر نامہ میں ذکر کیا ہے کہ اکبر کے دور میں بھی اس طرح کے مینار بنائے گئے تھے۔
کوس سے مراد ایک خاص فاصلہ ہے۔ صاحب فیروز الغات کے بقول کوس سے مراد “تین ہزار گز کی لمبائی ہے۔” جب کہ بعض کے نزدیک یہ لمبائی دو میل کے برابر یا چار ہزار گز ہے۔ لاہور میں اب بھی چند ایک کوس مینار موجود ہیں۔ ایک کوس مینار باٹا پور کے قریب بھی ہے۔ جبکہ ایک پاک بھارت سرحد کے پاس بھارتی علاقہ میں ہے۔

گڑھی شاہو کے کوس مینار کے متعلق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عہد شیر شاہ سوری سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن کتب تواریخ میں ہمیں عہد جہانگیر میں لاہور تا آگرہ کوس میناروں کی تعمیر کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ تزک جہاں گیری میں درج ہے کہ “میں نے حکم دیا کہ آگرے سے لاہور تک ہر کوس پر منارہ تعمیر کیا جائے جو اختتام کوس کی علامت ہو اور ہر تین کوس کے فاصلے پر ایک کنواں کھودا جائے, تاکہ مسافر راحت و آرام حاصل کرسکیں اور پیاس اور دھوپ کی تپش سے محفوظ رہ سکیں۔” ایسا ہی ایک بیان معتمد خان کا اقبال نامہ جہانگیری میں بھی ملتا ہے جس کے مطابق “جہاں گیر بادشاہ کے حکومت کے چودھویں سال لاہور سے آگرے تک کوس مینار تعمیر کیے گئے اور خیاباں کی طرح راستہ کے دونوں جانب درخت لگائے گئے۔” ڈاکٹر عبداللہ چغتائی و ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب نے بھی اس کوس مینار کو جہانگیر کے عہد کا

بتایا ہے۔


لاہور پر لکھی گئی کتب میں اس کوس مینار کا تذکرہ کم ہی ملتا ہے۔ البتہ صاحب تحقیقات چشتی نے اس مینار کا مختصر ذکر یوں کیا گیا ہے “(بنگلہ) کے شرق رویہ سڑک آہنی ملتان و مینار شاہجہانی۔ ایسے ایسے مینار بعہد شاہجہانی ایک ایک فرسخ یعنی پونے دو دو کوس پر بنے تھے چانچہ اب بھی کہیں کہیں موجود ہیں۔” نور احمد چشتی کے بقول ایسے مینار شاہجہان کے دور میں بنائے گئے تھے۔ ممکن ہے کہ جہانگیر کے دور میں بنائے گئے میناروں کی مرمت شاہجہان کے دور میں کی گئی ہو یا شاہجہان نے ان کی تعداد میں اضافہ کیا ہو۔ اس کوس مینار کے متعلق محمد جمیل خان صاحب نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ نیز ان کا تجزیہ کافی اہم بھی ہے۔ جمیل صاحب کے بقول “ایک مینار جو کہ جسامت میں دیگر میناروں سے کافی بڑا ہے ریلوے لائنوں کے پاس موجود ہے۔ اس سے ایک بات ظاہر ہوتی کہ شاہی روڈ (جی ٹی روڈ) پہلے دہلی دروازے اور چوک داراشکوہ سے ہوتی ہوئی یہاں تک آتی تھی۔ پھر یہاں سے چکر کاٹ کر بدھو کے آوہ سے ہوتی ہوئی سیدھی واہگہ کے طرف چلی جاتی تھی۔ اگر اس کوس مینار کو سیدھا دوسرے کوس میناروں سے سے ملایا جائے تو مقبرہ علی مردان خان، گلابی باغ، باغ مہابت خان، بیگم پورہ، انگوری باغ اور شالامار باغ سب ایک طرف رہ جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کوس مینار جسامت میں کافی بڑا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ایک بہت بڑا چوک ہوگا اور یہاں سے سڑک مڑ کر ان سب عمارات کے درمیان سے گزرتی ہوگی۔” آج سے کوئی چالیس برس قبل تک اصل شاہی سڑک کی باقیات شالامار باغ کے عقب میں موجود تھیں جو کہ اب ناپید ہوچکی ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی اہم ہے کہ شالامار باغ کے تختوں کی موجودہ ترتیب دراصل انگریز راج میں بنائی گی سڑک کی وجہ سے ہے۔ ورنہ اصل میں یہ اس سے الٹ ہے۔ مثلاً موجودہ تیسرا تختہ اصل میں پہلا تختہ تھا۔

کچھ عرصہ قبل اس کوس مینار پر دوبارہ حاضر ہوئے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہاں معلوماتی تختی بھی بالآخر آویزاں کر دی گئی ہے۔ البتہ اس پر درج معلومات میں کچھ نقائص ہیں۔ لیکن یہ امر پھر بھی لائق صد تحسین ہے کہ تاریخی عمارات پر معلوماتی تختیاں لگائی جا رہی ہیں۔ نیز اس مینار کی غالباً دو سال قبل مرمت بھی کی گئی تھی۔ لیکن افسوس کہ مینار دوبارہ بدحال ہو گیا۔ یوں تو مینار و اس کے گرد موجود احاطے کی حفاظت کے لیے آہنی جنگلہ لگایا گیا تھا۔ مگر اس کے مستقبل کا اندازہ لگانے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہاں موجود گھروں کا ایک دروازہ اس مینار کے احاطے کی جانب کھلتا ہے اور وہ لوگ اس جگہ کو بطور کچرا دان استعمال کرتے رہے۔ دلچسپ بات ہے کہ اس مینار کے حوالے سے ایک دو نیوز رپوٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا، جن میں اہل علاقہ محکمہ آثار قدیمہ کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ کیوں اس کی حفاظت کے لیے توجہ نہیں دیتے اور دیگر روائیتی جملے کہ مستقبل کے لیے اس کو محفوظ کرنا چاہیے۔ حکومت وقت کیوں نہیں جاگ رہی وغیرہ وغیرہ۔ مگر کیا انہوں نے کبھی خود سوچا کہ اس جگہ کو کوڑا دان محکمہ آثار قدیمہ نے تو نہیں بنایا۔ پھر وہاں ارد گرد موجود تقریباً تمام لوگ اپنے گھروں کا غلیظ پانی اس مینار کے احاطے میں چھوڑتے رہے۔ جس کے باعث یہ مینار مسلسل برباد ہوتا رہا۔ خدا جانے وہ اس کے متعلق کیوں نہیں سوچتے۔ ان کا اپنا ضمیر کیوں سویا ہوا ہے۔ شاید ہمیں من حیث القوم خود اختسابی کی سخت ضرورت ہے۔

بہرکیف اب مینار کی بحالی کی جانب دوبارہ توجہ دی جارہی ہے اور اس ضمن میں کام غالباً مکمل ہو چکا ہے۔ مینار کے ارد گرد موجود میدان میں ٹریک و پھولدار پودے بھی لگائے گے ہیں۔ اب اہل علاقہ سے التجاء ہے کہ وہ اس مینار کو تاریخی ورثہ جان کر اس کی حفاظت کریں۔ گو کہ یہ کوئی عالیشان عمارت نہیں مگر ماضی کی ایک یادگار تو ہے۔ نیز احباب سے گزارش ہے کہ اگر ان کو ماضی کی یادگاریں دیکھنے کا شوق ہے تو اس دلچسپ مینار کی بھی زیارت ضرور کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں