تاریخِ کربلا اور مقصدِ حسین عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ

سانحہ کربلا اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں نہ ہی اقتدار کے لیے لڑی جانے والی جنگ ہے۔ کرب و بلا کے پسِ منظر میں آکر دیکھا جاۓ تو اس کی اصل وجہ بغضِ علی ابنِ ابیطالب (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) ہے اور جب روزِ عاشور امام حسین (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ)نے اتمامِ حُجّت کی اور لشکرِیزید سے خطاب کیا تو لشکرِ اعداء نے بیک وقت کہا ” اے حسین! بُغضِ اَبِیہَا، تمہارے باپ کا بغض ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد تمہارے باپ کے ہاتھوں قتل ہوا ہے۔ہم انکا انتقام لے رہے ہیں۔”
قتلِ حسین (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کی دوسری وجہ ان آہنی ہاتھوں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا تھا جو حرامِ محمد (صَلَّىٰ ٱللَّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ) کو حلال اور حلالِ محمد (صَلَّىٰ ٱللَّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ) کو حرام کر رہے تھے۔
یہ وہ نام نہاد مسلمان تھے جن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ : ” ابھی تو ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترا۔ سورۂ منافقون کے جو مصداق تھے یہ انہیں کی اولادیں تھی جو امام (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) سے طالبِ بیعت ہوئے اور آپکو ترکِ وطن اختیار کرنا پڑا۔
مرگِ معاویہ کے بعد جب اس کے بیٹے یزید (لعنہ اللہ) نے عنان حکومت سنبھالا تو اس نے گورنر مدینہ کو امام حسین (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کو بیعت کیلئے آمادہ کرنے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ انکار کرے تو قتل سے ہر گز گریز نہ کرنا۔
حاکمِ وقت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے امام حسین (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کو دربار میں طب کیا گیا اور یزید ملعون کا پیغام سنایا گیا۔
امام نے تمام درباریوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
” اے بد بخت اپنے نام نہاد حاکم سے کہنا کہ ہم جیسوں نے کبھی تم جیسوں کی بیعت کی ہوتی تو حسین بن علی (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) تمہاری بیعت کرتا۔”
لوٹتے وقت آپ نے مسند نشین کو کہا “ہم حرمتِ مدینہ کو بچانے کے لیے ترکِ مدینہ کریں گے حسین کو تین دن کی مہلت دے۔”
آپ نے ۲۸ رجب المرجب کو مدینہ سے سفرِ مکّہ اختیار کیا تاکہ فریضۂ حج ادا کریں مگر یزید (لعنہ اللہ) کے کارندے حاجیوں کے لبادے میں قتلِ حسین (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کا ارادہ کیے کعبہ میں گھسے،آپ نے حج کو عمرے میں تبدیل کیا اور عازمِ کوفہ ہوئے۔
ابھی نصفِ سفر طے کیا تھا کہ آپکو اپنے برادرِ عمم و سفیر کا پیغام بر آ ملا اوراس نے جنابِ مسلم (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کا خط آپکے حوالے کیا، جس میں انہوں نے آپکو اہلِ کوفہ کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے آپکو کوفہ آنے سے روکا۔آپ نے خط پڑھنے کے بعد اپنا رستہ تبدیل کیا اور جانبِ عراق روانہ ہوئے۔
۲محرم کو آپ دشتِ نینوا میں پہنچے تو لشکرِ یزید کا سپہ سالار بھی آ پہنچا اور اس نے آپکو آگے بڑھنے سے روکا، امام حسین (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) نے حُر کی اس گستاخی پر جواباً کہا ” اے حُر تیری ماں تیرے غم میں روئے۔” آپکے ان کلمات نے ضمیرِ حُر کو بیدار کرنا شروع کیا۔
امام نے حضرتِ عباس (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) سے فرمایا کہ “سپاہِ حُر کو سیراب کرو۔” سیرابیِ سپاہ کے بعد جانوروں کو پانی پیش کرنے اور ان کی سمّوں کو بھی ٹھنڈا کرنے کا حکم دیا۔
آپ عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ نے بنو اسد سے اراضئ کرب و بلا کو خریدنے کے بعد انہیں کچھ نصیحتیں کرکے انہیں یہ زمین ھِبّہ کردی۔
آپ نے فرات کنارے خیمے نصب کروائے۔ گزرتے وقت کے ساتھ سپاہِ یزید کے لشکر جمع ہونا شروع ہوگئے۔
۷ محرم الحرام کو عمّرِ سعد (لعنہ اللہ) نے آپ کو فرات سے خیمے اکھاڑنے کے لیے کہا۔یزیدی فوج آبِ فرات پر قابض ہوئی اور لشکرِ حسینی کے افراد تشنہ لب ہوئے۔
۹ محرمالحرام کو عمّرِ سعد( لعنہ اللہ ) جنگ کے لیے آمادہ ہوا، امام نے ایک دن کی مہلت طلب کی، یقیناً وہ منتظر تھے ایک بھولے ہوئے راہئ حُر ریاحی کے جو ابھی اپنے ضمیر سے مصروفِ جنگ تھا۔ دوسری وجہ علماءِ کرام یہ بتاتے ہیں کہ قربانی کے لیے ذبیحِ کی عمر کم از کم ۶ ماہ ہونا ضروری ہے اور علی اصغر ابن الحسین (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) نے ۱۰ محرمالحرام کو ۶ماہ کا ہونا تھا۔ اس شہزادے کی شہادت دستاویزِ کربلا پر مہر کی اہمیت رکھتی ہے جس کے بغیر کربلا ادھوری رہ جاتی۔
شبِ عاشور کو امام نے تین حصّوں میں تقسیم کیا، ایک حصّہ انصار کیلئے، دوسرا عبادتِ الہی کیلئے، اور تیسرا پہر مخدّراتِ عصمت کیلئے۔
فجر کا وقت ہوا آپ نے ہم شکلِ مصطفیٰ شہزادہ علی اکبر (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ )کو اذان دینے کو کہا۔ صحرائے کربلا میں اذانِ علی اکبر گونجی خیموں میں قیامتِ صغرا برپا ہوئی۔
۱۰ محرم کو طبلِ جنگ بجا، جنابِ حُر( عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ ) بمع فرزند و غلام مولا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کربلا کا شہیدِ اوّل بھی انکا فرزند علی ابنِ حر بنا۔ یوں شہادتوں کا سلسلہ سفرِ شہادت شروع ہوا۔
عصرِ عاشور کا وقت ہوا بہن سے رخصت مانگی اور میدانِ کارزار میں آئے،رجز پڑھا اپنا تعرف کروایا۔ اتمامِ حجت کے بعد ذولفقار کو بے نیام کیا اور ایک پیاسے سے جنگ کا نقشہ بدل دیا۔
فوجِ یزید یوں بھاگ رہی تھی جیسے شیر کی بو سونگھ کر آہو بھاگتا ہے۔
یکایک غیب سے اک صدا آئی
” اے نفسِ مُطمئن پلٹ آ اپنے رب کی طرف تیرا رب تجھ سے راضی ہوا۔”
اس پر امام نے تیغ کو نیام میں رکھا، منتشر سپاہِ یزید نے پلٹنا شروع کیا۔
غریبِ زہرا پر حملہ شروع کیے کہیں سے تیر چلے، کہیں سے تیغ آئی, کہیں سے پتھر، جسے کچھ نہ ملتا وہ گرم ریت اٹھا کر بدنِ امام (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) پر پھینکتا۔
ایسے میں تیروں کے مصلہ پر سجدہ شکر ادا کیا اور اپنے نانا سے کیے عہد کو وفا کیا۔
شمر ذی الجوشن ( لعنہ اللہ) حالتِ سجدہ میں پشتِ امام پر سوار ہوا اور کند خنجر سے گلوئے امام پر ۱۳ ضربیں لگائیں۔
آخری ضرب کا لگنا تھا سرخ آندھیاں چلنے لگیں فضائے کربلا گونج اٹھی

قَد قُتلَ الّحُسَینُ بِکَربَلا
قَد ذُبِحَ الّحُسَینُ بِکَربَلا
اِنّالِلّہِ وَ انّا اِلَیہِ رَاجِعون

رَضاً بِقَضَائہِ وَ تَسلِیماً لی اَ مرِہِ

17 تبصرے “تاریخِ کربلا اور مقصدِ حسین عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ

  1. Wow, wonderful weblog format! How long have you ever been running a blog for? you make blogging look easy. The entire look of your web site is great, let alone the content! You can see similar: dobry sklep and here e-commerce

  2. When I originally commented I clicked the “Notify me when new comments are added” checkbox and now each time a comment is added I get several emails with the same comment. Is there any way you can remove people from that service? Thanks a lot! I saw similar here: najlepszy sklep and also here: dobry sklep

  3. Howdy! Do you know if they make any plugins to assist with SEO? I’m trying to get my blog to rank for some targeted keywords but I’m not seeing very good results. If you know of any please share. Many thanks! You can read similar text here: Backlink Building

اپنا تبصرہ بھیجیں