بادشاہ کی کنیز اور شہزادہ

اس کا قصور بس اتنا تھا کہ وہ صرف بادشاہ کی کنیز تھی یہی جرم اسے 20 سال تک حرم کے کسی کونے میں قید رکھنے کے لیے کافی تھا تاکہ اس پر کسی کی نظر نہ پڑے لیکن وقت کی بے رحم موجوں نے اس کنیز کو بادشاہ اور شہزادے کے بیچ کھڑا کردیا جس کے بعد خون ریزی کا ایسا سیلاب آیا جو پوری سلطنت کو بہا کر لے گیا۔۔

یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ پوری تاریخ ہے۔۔ اوپر بادشاہ کی جس کنیز کا نام لیا ہے وہ کوئی عام کنیز نہیں بلکہ مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ جلال الدین اکبر کی کنیز انار کلی ہے۔۔ جسے شہزادہ سلیم کی محبت کے جرم میں دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔۔ جس کا مزار لاہور کے وسط میں موجود ہے اور انکی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے ایک بازار انار کلی کے نام سے منسوب کیا گیاہے۔۔

دو روز قبل دفتری امور سے فراغت پاتے ہی روم پر پہنچ کر سونے کا ارادہ باندھا ہی تھا تو موبائل سکرین پر تاج کے نام سے فلمی پوسٹر دیکھا۔ جس میں مشہور بھارتی فلمسٹار نصیرالدین شاہ بادشاہ کے روپ میں نظر آئے۔۔ بات نصیرالدین شاہ کی اداکاری کی ہو تو انکے لاکھوں کروڑوں مداحوں میں ہم بھی خود کو شمار کرتے ہیں۔۔

زی سینما کے پلیٹ فارم سے نشر کی گئی سیریز جسکا عنوان “تاج ڈیوائڈد بائے بلڈ” ہے، مغلیہ سلطنت کے بادشاہ جلال الدین اکبر کی ہندوستان پر حکومت کے عروج و زوال کی داستان پر مبنی ہے۔۔۔

کہانی چونکہ ہندوستان کی ہے اور ہندوستان کے پلیٹ فارم سے ریلیز ہوئی ہے اس لیے تاریخ کو اس تاریخی واقعہ کی بدولت تاریخ کو تبدیل یا مسخ کر کے بھی پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ سیزن جلال الدین اکبر کے خاندان کے دور حکومت کے مناظر پیز کرتا ہے۔۔ اب اس میں کتنی سچائی ہے یہ ہسٹری کے طالب علم ہی بتا سکتء ہیں کیونکہ دونوں اطراف تاریخی واقعات کو الگ الگ نظریے سے پیش کیا گیا ہے۔۔ مختصر کہانہ ہم بیان کر دیتء ہیں باقی تفصیل سے کارئین خود دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں۔۔۔

کہانی جلال الدین اکبر کی جوانی سے شروع ہوتی ہے جب وہ راجپوتوں کے سروں کو کاٹتے ہوئے انکی جاگیر پر قبضہ کر کے دلی پر تخت نشین ہوتا ہے۔۔تب اسے اولاد کی کمی محسوس ہوتی ہے۔۔ اس لیے اکبر بادشاہ وہاں کے بزرگ سے اولاد کی دعا مانگنے جاتا ہے تو وہ بابا اسے تین بیٹوں کی خوشخبری دیتے ہوئے اسکے تخت کو زوال آنے کی پیش گوئی کرتا ہے۔۔

اس کے بعد کہانی دو عشروں کے بعد کے واقعات کی منظر کشی کرتی ہے جس میں اکبر بادشاہ بزرگ ہوتے ہیں اور اسکی اولاد جوان جن میں تین بیٹے بڑا سلیم جسے جلال الدین اکبر کی طرح عیاش اور شراب و شباب کے نشے میں مست کنیزوں کے ساتھ بوس وکنار ہوتے دکھایا جاتا ہے۔۔ جسے سرور و مستی کے علاوہ تخت میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔۔ دوسرا بیٹا شاہ مراد جسے گمنڈی سر پھرا جس کے سر پر جنگی جنون سوار ہوتا ہے، جو خود کو تخت کا اصلی وارث سمجھتا ہے۔۔ تیسرا چھوٹا بیٹا عادل شاہ جوکہ کم سن ، معصوم ، نمازی اور پرہیزگار کے روپ میں دکھایا جاتا ہے۔۔جسے کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں جوکہ چند وزیر ملاؤں کے زیر تاب رہتا ہے۔۔

بادشاہ اکبر دلی کے تخت کے لیے اپنے بھائیوں کی بغاوت کو دیکھ کر اپنے تخت کا وارث بڑے بیٹے سلیم کی بجائے تینوں بیٹوں میں سے جو زیادہ قابلیت کا حامل ہوگا وہی تخت کا اصلی وارث قرار پائے گا اسی شرط پر بادشاہ اپنے تینوں بیٹوں کو آزمائش کے لیے مختلف ذمہ داری سونپتا ہے۔۔۔ جس کے بعد تینوں بیٹوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت کا بیج جنم لیتا ہے۔۔ شہزادہ سلیم تخت کے حصول کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتا، اور بادشاہ اکبر چاہتا ہے کہ سلیم ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے قابلیت کے زریعے تخت سنبھالے، مراد شاہ تخت حاصل کرنے کے لیے بیچین رہتا ہے اور عادل شاہ بچپنے میں وزیر ملا کے اکسانے پر اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے تخت کی دوڑ میں شامل ہوجاتا ہے۔۔

کہانی میں انار کلی کو حرم میں کسی خفیہ جگہ حالت قید میں رکھا گیا ہوتا ہے جہاں سوائے بادشاہ اکبر کے کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔۔جو ساری عمر قید تنہائی میں آزادی کے خواب بنتی رہتی ہے۔۔۔۔

اس کہانی میں انار کلی کا سامنا شہزادہ سلیم سے کب ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے۔۔ اور اکبر بادشاہ پر یہ راز کب آشکار ہوتا ہے۔۔ شہزادہ سلیم اور بادشاہ اکبر میں تناؤ کس طرح پیدا ہوتا ہے۔۔ کس وجہ سے شہزادہ سلیم کو سلطنت سے بے دخل کردیا جاتا ہےاور انار کلی کو دیوار میں چنوانے کی نوبت کیوں پیش آتی ہے۔۔۔؟ یہ سب اگر میں نے بتا دیا تو پھر آپکو کہانی دیکھنے میں دلچسپی نہیں رہے گی اس لیے اگر آپ ان رازوں سے آشکار ہونا چاہتے ہیں تو پھر خود ہی دیکھ لیجے۔۔
(رضوان حیدر سہو کی وال سے)

اپنا تبصرہ بھیجیں