آرمی چیف کی علماء و مشائخ کیساتھ ملاقات

بر صغیر پاک و ہند کی معاشرتی ساخت میں علماء و مشائخ کا کردار ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے۔یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے ترویج اسلام میں نمایاں ترین کردار ادا کیا۔1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلم معاشرے میں مذہبی اقدار برقرار رکھنے کیلئے علماء نے بیش بہا قربانیاں دیں۔

جس کے نتیجے میں معاشرے کے تمام طبقات میں ان کا احترام اور ان کی رائے کی اہمیت موجود رہی۔ قیام پاکستان کے بعد تمام علماء اس امر میں یکسور رہے کہ نظریہ پاکستان پر کسی قسم کی کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔قرارداد مقاصد نے ریاست پاکستان کے خد و خال واضح کیے اور آج تک بننے والے تمام دساتیر اسی قرارداد مقاصد کے اصولوں کے تابع ہیں۔

آج بھی پاکستان بھر میں کروڑوں لوگ ہر جمعہ کو مسجد میں جاتے ہیں اور براہ راست علماء کی گفتگو سماعت کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرتی رائے سازی میں علماء اور مشائخ کا کردار مسلم ہے۔پاکستان میں فروغ تعلیم کیلئے مختلف درگاہوں پر بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے جہاں سے علماء کرام تیار ہو کر معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں

۔ان مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں مذہب کا منفی استعمال کیا گیا۔مذہبی تعلیمات کی غلط تشریح کی گئی اور ادھورے فہم کی بنیاد پر ایک ایسا نقطہ نظر لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی جس کی نہ تو اسلام میں کوئی گنجائش ہے اور نہ دستور پاکستان اس کی اجازت دیتا ہے۔مذہب کا ادھورا فہم رکھنے والے لوگوں نے ملک بھر کی درگاہوں اور پبلک مقامات پر مختلف اوقات میں دھماکے کیے۔

ہزاروں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بنے۔یہاں تک کہ سانحہ اے پی ایس نے تمام حدیں پار کر دیں۔اور پھر طویل عرصے کے بعد ملک کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اور مشائخ ایک چھت تلے جمع ہوئے اور ’’پیغام پاکستان‘‘جیسی اہم دستاویز پر 1800 سے زائد جید علماء و مشائخ نے دستخط کیے اور متفقہ طور پر دہشت گردی کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔اس وقت کی عسکری اور سیاسی قیادت نے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ایک طرف تو میدان عمل میں اتر کر ضرب عضب اور رد الفساد جیسے آپریشن کیے تو دوسری طرف علماء و مشائخ نے بھی رائے عامہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یوں پوری قوم یکسو ہو

کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دہشت گردی کے سامنے کھڑی ہوئی اور دہشت گردوں نے شکست کھائی۔ پاک فوج اور شہریوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور دہشت گردی ایک قصہ پارینہ بن کر رہ گئی۔پھر حالات نے پلٹا کھایا۔افغانستان میں طالبان حکومت نے اپنی جڑیں مستحکم کیں۔جن قوتوں کو ریاست پاکستان نے ایک طویل عرصہ گود لیے رکھا تھا وہی عناصر خم ٹھونک کر پاکستان کے سامنے کھڑے ہو گئے۔اور دہشتگردی کے واقعات میں سنگین اضافہ دیکھنے کو ملا۔کئی فوجی افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔پاک افغان بارڈر پر حملو

ں،پاک فوج کی چوکیوں پر دہشت گردانہ کارروائیوں اور ملک کے اندر خود کش حملوں میں اضافے نے ایک مرتبہ پھر پوری قوم کو چونکا دیا۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے جس طرح معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کیلئے تاجروں اور کاروباری لوگوں سے مکالمہ کیا تھا اسی طرح،اس ہمہ جہتی بحران کا سامنا کرنےکیلئے ملک کے سب سے موثر طبقے کو اپنے ہاں مدعو کیا۔

ان کی جانب سے ملک بھر کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء اور مختلف اہم درگاہوں کے سجادہ نشین حضرات کو مدعو کر کے انہیں اعتماد میں لینا خوش کن ثابت ہوا۔شرکاء میں وہ تمام بزرگ شامل تھے جو کسی نہ کسی حوالے سے اپنے مکتبہ فکر کی آرا پر اثر انداز ہو سکتے تھے۔اس اجلاس کے شرکاء میں مولانا مفتی تقی عثمانی،پیر محمد امین الحسنات شاہ،مفتی منیب الرحمن،پیر نقیب الرحمنٰ،علامہ امین شہیدی،صاحبزادہ پیر قاسم سیالوی،مولانا ضیا اللہ شاہ بخاری سمیت تمام مسالک کےبااثر علما شامل تھے

۔آرمی چیف نے ان محب وطن پاکستانیوں کو یاد دلایا کہ آپ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے’’پیغام پاکستان‘‘ جیسا مفصل فتویٰ جاری کیا۔آپ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے پیغام پاکستان کی بدولت مذہبی، صوبائی، قبائلی، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ امتیاز کو ختم کرنے کی طرف ایک مؤثر قدم اٹھایا۔آرمی چیف نے علماء و مشائخ سے مخاطب ہوکر کہا کہ پاکستان،تمام پاکستانیوں کا ہے اور ان پاکستانیوں کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہ

ے۔انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ریاست کے علاوہ کسی بھی ادارے یا گروہ کی طرف سے طاقت کا استعمال اور مسلح کارروائی ناقابل قبول ہے۔عساکر پاکستان کے سپہ سالار نے علماء و مشائخ کے سامنے تمام ملکی صورتحال کا جائزہ بیان کیا۔انہوں نے کہا کہ ریاست کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا روکنے ،اندرونی اختلافات دور کرنے،نوجوانوں کی کردار سازی اور قران و سنت کی درست تفہیم کیلئے مزید موثر اقدامات کیے جائیں۔

جنرل عاصم منیر نے علماء سے فرداً فرداً ملاقات بھی کی اور علماء کرام نے اس موقع پر کھل کر اظہار خیال کیا اور موجودہ صورت حال سے نمٹنے کیلئے مفید تجاویزبھی پیش کیں، جنہیں آرمی چیف نے توجہ سے سنا۔علما و مشائخ نے متفقہ طور پر افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی پر پاکستان کے موقف اور تحفظات کی بھرپور حمایت کی اور انہیں دور کرنےکیلئے افغانستان کی جانب سے سنجیدہ اقدامات کیے جانے پر زور دیا۔شرکائے اجلاس نے غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے ریاستی مظالم پر غم وغصے کا اظہار کیا اور انہیں انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا۔اعلیٰ ترین سطح پر اعتماد سازی کا یہ عمل استحکام پاکستان میں اہم کردار ادا کرے گا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوامی بیداری میں معاون ثابت ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں