کیوں زیاں کار بنو سود فراموش رہوں؟
فکر فردا نہ کروں محو غمِ دوش رہوں
نالے بلبل کے سنو اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنواں میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں؟
آخر ہم کب تک برداشت کرتے رہیں گے؟ہم جس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں آئے روز مہنگائی کا جن بے قابو رہتا ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول اور اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ عوام ہر روز اس آس پہ سوتی ہے کہ شاید صبح کا سورج ان کے لیے امید کی کرن بن کر طلوع ہو مگر افسوس کہ ان کی آنکھ اس خبر پر کھلتی ہے پٹرول 19.95 فی لیٹر مہنگا ہوگیا ہے یا بجلی کی قیمت 4 روپے 96 پیسے فی یونٹ بڑھ گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی بدولت غریب آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ غربت سے تنگ آکر بہت سے لوگ اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی کو ختم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ غریب خودکشی کرے، اپنی بیوی، بچوں کا گلا گھونٹ دے یا انھیں زہر دے کر مار دے اس صورتحال سے حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ عوام ہی ہے جو ایک پلیٹ بریانی یا چند روپیوں کی خاطر اپنا حق دوسروں کو سونپ کر اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگاتے ہیں۔ کیونکہ شاید وسائل پر قابض لوگ غریبوں کو بتاتے ہیں بھوک خُدا کی آزمائش ہے اور ہم اس آزمائش کو ختم کرنے کا ذریعہ ہیں اور یہی طاقتور لوگ اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے کیے وعدے وفا نہیں کر پاتے۔ بات صرف حکمرانوں تک محدود نہیں ہے۔ عوام بھی جیسی قوم ویسے حکمران والی ضرب المثل پر پورا اترتے ہیں۔ جس شخص کا اپنے طور پر جہاں بس چلتا ہے وہاں وہ دوسروں کا حق کھانے سے گریز نہیں کرتا۔ ایک دوسرے کی حق تلفی کرکے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ عوام حقوق کا رونا تو روتی ہے مگر فرائض ادا کرنے سے کتراتی ہے کیونکہ حقوق کا تعلق فرائض سے ہے اور فرائض ادا کئے بغیر کبھی حقوق حاصل نہیں ہوتے۔
پاکستان وہ ریاست ہے جسے خود مختار اسلامی فلاحی ریاست گردانہ گیا، عدل و انصاف، نظم و ضبط اور معاشی و معاشرتی استحکام جس مملکت کا منشور تھا۔ مگر افسوس آج یہاں ناپ تول میں کمی، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے ساتھ ظلم و زیادتی، نسلی تعصبات، مذہبی امتیاز، فرقہ واریت، دہشت گردی اور حقوق کی پامالی عام سی بات ہے۔ ہر جگہ نفسانفسی اور انتشار پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملکی و ذاتی مفادات اور مذہبی رسومات کے نام پر اکھٹی ہونے والی مسلم امہ جب کشمیر، فلسطین اور بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی بات آتی ہے، تو کیوں خاموش رہتی ہے؟ کیا چند گانے بنانے سے یا بین الاقوامی فورم پر اپنے ملک کی عزت بچانے کے لیے ہمدردی کے چند الفاظ کہ دینا کافی ہے؟ جب اللہ حکمرانوں کا دل اپنی مٹھی میں لیں لے اور وہ لمبی تان کے آئے ہوئے ہوں تو کیا قوم پر فرض نہیں کہ وہ جہاد کرے؟
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کیونکہ ظلم و جبر کے خلاف خاموشی بھی ظالموں کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ وہ ملک جسے اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے حاصل کیا گیا وہاں آج تک اللہ کا نظام قائم نہیں ہو سکا ؟
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے پر بغاوت نہیں کرتا
ہمارا مذہب بھی ہمیں حق کے لیے آواز بلند کرنا سیکھاتا ہے ہم اگراسلام کی تعلیمات پر چلے تو اپنے ملک کو امن و امان کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا بھی جہاد ہے۔
امام حسین عليہ السلام نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا، آپ نے فرمایا لوگو!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے، خدا کا عہد توڑنے والے، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔
ہمارے ملک کی مجموعی ترقی کے لیے انسانی حقوق کا یکساں ہونا انتہائی ضروری ہے کہ ایک انسان کو اس بات کا مکمل حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکے اور معاشرے کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے کسی بھی عمل پربنا ڈرے تنقید کر سکے۔ اپنے اوپر ہوتے ظلم کے خلاف خاموش نہ رہے بلکہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ڈٹ کر مقابلہ کرے