وراثت ایک اہم معاملہ ہے جو ایک مجتمع میں افراد کے حقوق اور تقسیم کے امور کو ریاستی قوانین اور دینی مقررات کے تحت ریگولیٹ کرتا ہے۔ قبل از اسلام عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی برائیوں کا شکار تھی۔ عورت کو تمام برائیوں کا سبب اور ہر چیز کے لیے قصوروار ٹھہرایا جاتا تھا۔ اہل عرب کے اس بدترین رویے کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اور وہ اللہ کے لیے وہ کچھ(یعنی بیٹیاں) ٹھہراتے ہیں جسے وہ ناپسند کرتے ہیں‘‘۔ (القرآن )
یعنی کفار مکہ اللہ کی بیٹیاں ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ قرآن حکیم کی ان آیات سے واضح ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کا مرتبہ ناپسندیدہ تھا۔ عورت مظلوم اور ستائی ہوئی تھی اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت مردوں کے لیے تھی۔ جنگیں لڑنے والوں یا پھر سب سے بڑے بیٹے کو ہی صرف وراثت کا واحد حقدار قرار دیا جاتا تھا۔ وراثت میں عورت کو کسی بھی قسم کا کوئی حق نہ دیا جاتا تھا بلکہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کو پیسے کے لیے بیچ دیتے تھے یا عورت کو زندہ زمین میں درگور کر دیا جاتا تھا۔ اگر ان کی شادی ہوتی تو وہ بھی کسی عذاب سے کم نہ ہوتی، نہ نکاح میں کوئی خطبہ، نہ کوئی مہر بلکہ عورت کو اپنی جاگیردار سمجھتے تھے۔ معاشرے میں چند خواتین تھی جنہیں مالک بننے کا حق ملا اور وہ جائیداد کی مالک تھیں، جیسے کہ حضور ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ الکبریٰ صلوٰۃ۔ لیکن معاشرے میں عورت کا کوئی مقام نہ تھا۔ لیکن جب اسلام کا نزول ہوا تو اسلام نے مرد و عورت کو برابر قرار دیا۔ اسلام نے خواتین کو سماجی، قانونی، معاشی اور سیاسی تناظر میں تمام بنیادی حقوق عطا کیے ہیں۔ جسں میں سے ایک حق وراثت کا تھا۔ مرد و عورت، دونوں اپنے ورثا کے لیے مال چھوڑ سکتے ہیں اور دونوں ہی اپنے اقربا کی وراثت سے حصہ پانے کے حق دار ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے کہ ’’ماں باپ اور رشتے دار کے ترکے میں خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ لڑکوں کا حصہ ہیں اور ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے میں خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ لڑکیوں کا بھی حصہ ہے اور یہ حصے خداکی طرف سے مقرر ہیں‘‘۔ یعنی لڑکا اور لڑکی دونوں وراثت میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے کے حقدار ہیں اور کوئی بھی ان کو ان کے حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ لیکن مرد کا حصہ عورت کے مقابلے میں زیادہ طے پایا گیا ہے۔ سورہ النساء میں مرد و عورت کے وراثت کے اصول بیان کیے گیے۔ احدیثِ مبارکہ میں ایک تہائی مال میں سے وصیت کی اجازت دی گئی ہے۔ قرآانِ مجید میں ارشاد ہے کہ ’’ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے‘‘۔ یعنی جائیداد میں مرد کو عورت کے مقابلے میں ایک حصہ زیادہ ملے گا۔ ارشادِ باری تعالی ہے ’’تمہاری اولاد سے متعلق اللہ کا یہ تاکیدی حکم ہے کے ترکے میں لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے‘‘۔ اگر اکیلی لڑکی ہو تو اسے آدھا ترکہ ملے گا اور (میت کے) ماں باپ میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ وہ اپنے پیچھے اولاد بھی چھوڑے، اگر اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور وارث ماں باپ ہی ہو تو ماں کے لیے ایک تہائی( ماں باپ کے ساتھ) بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہوگا‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ میں تقسیم کے اصول بتائے گئے ہیں کہ ترکہ میں لڑکا اور لڑکی دونوں کو حق ملے گا لیکن لڑکے کو لڑکی سے ایک دگنا ملے گا۔ لیکن اگر لڑکا کوئی نہ ہو تو دو لڑکیاں ہو تو لڑکیوں کو دو تہائی ملے گا۔ ایک دفعہ ایک صحابی سعد بن ربیع غزوہ احد میں شہید ہوگئے ان کی دو بیٹیاں تھی، ان کے بھائی نے سارے ترکے پر قبضہ کر لیا۔ جس پر سعد کی بیوی حضورﷺ کے پاس آئی اور سارا ماجرا ان کے سامنے بیان کیا، آپ ﷺ نے سعد کے بھائی کو بلوایا اور اس حکم پابند کیا کے مرحوم کی دونوں بیٹیوں کو دو تہائی اور بیوی کو آٹھواں حصہ دے دو اور بقیہ خود رکھ لو۔ اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو اسے ترکے میں سے نصف ملے گا جب کے باقی حصہ رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ اگر اولاد کے ساتھ میت کے ماں باپ بھی زندہ ہو تو پہلے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور باقی دو تہائی اولاد کو ملے گا۔ اگر متوفی کے کوئی اولاد نا ہو، اور صرف ماں باپ ہو تو ترکے کا ایک تہائی ماں کو جب کے باقی باپ کوملے گا۔ آخر میں اگر متوفی کے حصہ میں ماں باپ کے ساتھ بہن بھائی بھی ہو تو ماں کو چھٹا حصہ ملےگا۔ شریعتِ اسلامی میں عورت مختلف حیثیتوں میں وراثت کی حق دار پائی گئی ہے، البتہ یہ ضروری نہیں کہ صرف خاتون ہی وراثت میں حصہ دار پائی گئی ہے۔ یہ حیثیت ماں، بہن، بیوی، بیٹی، نانی، دادی، نواسی، پوتی، خالہ اور پھوپھی کی بھی ہے۔ تاہم، خواتین میں کچھ رشتے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ قریبی ہونے کے باوجود ترکے کی حق دار نہیں ہوتیں۔ جیسے سوتیلی ماں، سوتیلی بیٹی، ساس، بہو، نند، بھابھی، چچی، ممانی۔ کیونکہ ان کے درمیان خون کا رشتہ نہیں ہوتا، ان کا تعلق دوسرے خاندانوں سے ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حواے سے لوگوں کے نظریات بہت غلط باتوں کے عکاس ہیں جن میں سے ایک جہیز ہے۔ جہیز دے کر یہ سمجھنا کے اب لڑکی کا وراثت پر کچھ حق نہیں رہا یا پھر اسے حصہ نہ لینے پر آمادہ کر لیا جاتاہے۔ ترکہ اللہ کا مقرر کردہ حق ہے اگر عورت کو جہیز ملتا ہے تو وہ پھر بھی ترکے میں حصہ دار رہتی ہیں۔ اگر ہم خود اس عمل پرعمل کرتے ہیں تو ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی ہر گھر میں اس عمل کو فروغ دیا جائے گا۔ اور یوں معاشرے میں امن کی فضا قائم ہوگی۔ تاہم، ترکے میں حصہ نہ ملنے کی صورت میں سب سے پہلے اپنے عزیز و اقارب کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، اگر مسئلہ حل نا ہو تو قانونی کارووٗائی کرسکتے ہیں جب تک حق نہ مل جائے عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ وراثت میں خواتین کے حق کے لیے مل کر آواز بلند کرنا ہوگی کا کہ آنے والی نسلیں پہلے سے ہی اس عمل کی آگاہی رکھتی ہو۔ خواتین کو کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ جس طرح پاکستان میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگتا ہے ویسے ہی اگر عورت کو عزت دو کا نعرہ لگ جائے تو اِنشاء اللہ معاشرے میں آدھے سے زیادہ فساد و فتنے ختم ہو جائے گے۔
