Dr Hassan Farooqi

کیا ایئرکنڈیشنر کا موجد جنت میں جائے گا ؟

آجکل عقلیت پسند طبقے کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ بظاہر گنہگار مسلمان آخر جنت میں جائے گا تو کیسے؟ اور ایک انسان دوست کافر عمر بھر دوزخ میں جلے گا توکیوں ؟ اگرچہ قران و حدیث میں ان سوالات کے جوابات بالتفصیل موجود ہیں تاہم عقلیت پسندوں کو قائل کرنے کے لیے عقلی اور منطقی دلائل ہی موزوں قرار پاتے ہیں۔ واضح رہے کہ مذہب ایک عالمگیر پروگرام کا نام ہے جو تمام مخفی حقیقتوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس پروگرام کے خالق نے مصلحتاً کچھ حقیقتیں انسان پر بذریعہ الہام واضح کر دی ہیں، انسان کو مخفی مادی حقائق کو دریافت کرنے کی ترغیب بھی دی ہے جو وقت اور انسانی کوششوں کے ساتھ ساتھ قیامت تک عیاں ہوتے رہیں گے جبکہ باقی بروز قیامت آشکار ہوں گے ۔ سب سے بڑی حقیقت ، حقیقتِ الٰہی ہے جو رویت الٰہی کی صورت میں انسانوں پر بروز قیامت آشکار ہوگی۔ قدرت کی اس اسکیم یا پروگرام کو کلی طور پر سمجھنے کے لیے ہم جیسے انسان عقل و دانش کی مدد سے ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں اور قیامت تک مارتے رہیں گے۔ آج جن حقائق تک ہم رسائی حاصل کر چکے ہیں ہزار یا دو ہزار سال قبل کا انسان یہاں تک نہیں پہنچا تھا۔ منطقی طور پر آج سے ہزار یا دو ہزار سال بعد کا انسان بھی عقل و منطق اور علم کے اس معیار سے بہت آگے ہوگا جہاں آج ہم ہیں۔ تحقیق و جستجو کے اس نظام یا شعور و آگہی کے اس سفر میں “مادی حقائق کو دریافت کرنے کی ترغیب” بھی مذہبی پروگرام میں شامل ہے لہذا ایئرکنڈیشنر سے بات چاہے کتنی آگے بڑھ جائے، کلوننگ ہو، کرسپر ہو، یا مصنوعی ذہانت کا جادو سر چڑھ کر بولے، کسی بات سے بھی مذہب کی بے توقیری نہیں ہوتی بلکہ سائنسی دریافتیں ہمیں الوہی حقائق کے مزید قریب کر دیتی ہیں ۔ سائنس کونیاتی ( cosmic ) حقائق سے باہر کچھ دریافت نہیں کرتی۔ پوری کائنات میں خالق و مخلوق یا علت و معلول کا رشتہ موجود ہے۔ ہر دور کا انسان معلوم یا دریافت حقائق کو سائنس کے پلڑے میں ڈال دیتا ہے اور نامعلوم کو مذہب کے۔ یہ سلسلہ شائد قیامِ قیامت تک جاری و ساری رہے۔ اگر صنعتی انقلاب کے بعد کا انسان پرانے زمانے کے انسان سے مختلف ہے تو کیا آج کا انسان پرانا نہیں ہوگا ؟ ہزار سال بعد جب آج کا انسان پرانا ہوگا تو ہم اور ہمارے نظریات کہاں کھڑے ہوں گے؟ لہذا منطقی سوچ کا تقاضا ہے کہ ہم قدرت کی پوری اسکیم کو سمجھتے ہوئے اپنے نظریات اور تعبیرات پیش کریں۔ 28 جون کو روزنامہ جنگ میں چھپے ایک فاضل کالم نویس نے یہ سوال اٹھایا کہ کافر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں کیوں رہے گا اور مسلمان کیوں بالآخر جنت کے مزے لے گا؟ واضح رہے کہ مسلمان پر جنت واجب ہے خواہ وہ لاکھ گناہ کرے اور کافر پر جنت حرام ہے خواہ وہ لاکھ بھلائیاں کرے۔ یہ نظریہ یا عقیدہ نہایت واضح اور سادہ نوعیت کا ہے ۔ عقلیت پسند اسے دیکھنے کے لیے جس عینک کا استعمال کرتے ہیں بس اس کا نمبر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ داخل ہونے کے لیے ویزے کا ہونا از حد ضروری ہے۔ کینیڈا امیگریشن کے لیے بھی ویزا درکار ہے۔ دنیا میں کہیں بھی جانا اور رہنا ہو ویزے کے بغیر ممکن نہیں ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رہنے کی سب سے اعلیٰ و ارفع جگہ جنت ( یہ سب انسانوں کا عقیدہ ہے) کے لیے ویزہ نہ ہو. اب سوال یہ ہے کہ جنت کا ویزا کیا ہے؟ جی ہاں جنت کا ویزہ ایمان ہے۔گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اور جس زمانے میں جو بھی اللہ کا نبی یا رسول ہے وہ برحق ہے ۔ جو شخص بھی اس ایمان کے ساتھ مرے گا یا مرا ہے اس کے لیے جنت واجب قرار دی گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک شخص حامل ایمان تو ہے مگر بد عمل ہے ۔ مگر دوسرا شخص حامل ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ نیک اعمال میں بھی اعلیٰ و افضل ہے تو دونوں ایک ساتھ اللہ کے مقرب کیسے ہو سکتے ہیں؟ جی ہاں ان میں سے ایک شخص تو اپنے ایمان و عمل کی بدولت براہ راست جنت میں جائے گا جبکہ دوسرا دوزخ یا دیگر ذرائع سے اپنی بداعمالیوں کی سزا کاٹ کر جنت میں داخل ہوگا ۔ یہاں ہمیں ایمان، جس کی حیثیت جنت کے ویزے کی سی ہے، کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا لینا چاہیے۔یہ بہت سادہ سی تفہیم ہے۔ اس کے برعکس ویزہ یعنی ایمان نہ ہونے کے سبب کوئی کافر جنت میں داخل نہ ہو سکے گا بلکہ دوزخ میں رہے گا۔ یہاں بھی دو اشخاص کی مثال سامنے رکھتے ہیں کہ ایک کے پاس نہ تو ویزہ ہے اور نہ ہی صالح اعمال جبکہ دوسرے کے پاس ویزہ یعنی ایمان تو نہیں ہے مگر ایسے اعمال ضرور ہیں جو بنی نوع انسان کے لیے نہایت نفع بخش ہیں۔ یہاں عقلیت پسندوں کا خیال ہے کہ چلیں پہلا شخص تو بھلے دوزخ میں رہے مگر دوسرے کو اچھے اعمال کی وجہ سے ضرور جنت کا حقدار ہونا چاہیے۔ میری ایسے تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ جس طرح دنیا میں ویزے کے بغیر کوئی پاکستانی امریکہ میں قیام پذیر نہیں ہو سکتا بعینہ کوئی کافر بھی بغیر ویزے کے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ مزید تفہیم اور پروردگار عالم کے عدل کو سمجھنے کے لیے یہ بھی واضح رہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی رائی برابر نیکی اور ذرہ برابر برائی بھی ضائع نہیں ہونے دے گا یہ بھی اس کے مقام و مرتبے کا منطقی تقاضا ہے۔ سورہ الرحمٔن میں ایک جنت اور پھر دوسری جنت کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ جنتیں ایک سے زیادہ ہیں ۔اور جنت میں بھی درجہ بندی ہے۔ جیسے ہم دعا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں کے درجات بلند فرمائے۔ یہ درجات تقوی کی بدولت ہیں۔ آئیے اب دوزخ کی طرف چلتے ہیں۔ منطقی طور پر کیسے ممکن ہے کہ جنت کے تو درجات ہوں مگر دوزخ کے نہ ہوں۔ ایسے کفار جو بداعمالیوں سے بچے ہوں گے منطقی طور پر وہ دوزخ کے اس مقام پر رہیں گے جو نسبتاً کم ہولناک ہو۔ اسی طرح وہ کافر جو عمر بھر انسانوں کی خیر خواہی یا آسودگی کے لیے کام کرتے رہے مثلا ایئرکنڈیشنر بناتے رہے، پینسلین ایجاد کرتے رہے یا بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین تیار کرنے میں لگے رہے انہیں یقینی طور پر ایسے افراد کے ساتھ نہیں رکھا جانا چاہیے جنہوں نے ہٹلر کی طرح کروڑوں انسانوں کا قتل کیا ہوگا۔ لہذا یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جنت میں داخلہ ویزے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ البتہ سزا اور جزا کا معاملہ اعمال کے ساتھ وابستہ ہے۔ کسی مسلمان کے لیے سزا یہ ہے کہ وہ اعمال کے حساب سے جنت میں داخل ہونے سے پہلے دوزخ کا مزہ چکھے اور کسی کافر کی جزا یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے اچھے اعمال کی بدولت اس کی سزا میں تخفیف کر دی جائے۔ الغرض خدا کے عدل کا منطقی تقاضا یہی ہے کہ ایئرکنڈیشنر کا موجد عدم ایمان کے باعث دوزخ میں رہے تاہم اچھے اعمال کے مطابق رعایت حاصل کرے ۔ اسی طرح برفیلی وادیوں کے باسیوں کے لیے آگ اور گرم علاقوں کے رہائشیوں کے لیے جنت میں برف کا اہتمام بھی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ اس عمومی اصول کا منطقی نتیجہ ہے کہ جنتی جو خواہش کرے گا پوری ہوگی۔ واضح رہے خدا تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت اور منطق کار فرما ہے بس دیر ہماری سمجھ کی ہے کہ ہم وقت کی کس گھڑی میں حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں