Afzal rehan

باجوڑ خودکش حملہ کیوں؟

15اگست 2021ءکو افغانستان میں اشرف غنی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے طالبان کی نئی حکومت اس دعوےپر قائم ہوئی کہ اس مرتبہ وہ ملا عمر کی طالبان حکومت سے مختلف ہو گی ۔ دوحہ معاہدے کے تحت امریکہ سے یہ طے پایا کہ آئندہ طالبان دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث نہیں ہونگے اور نہ ہی اپنی سرزمین ایسی سرگرمیوں کیلئے استعمال ہونے دیں گے ۔
کسی بھی فرد یا گروہ کی آئندہ کیلئے یقین دہانیوں کو ماضی کی کارکردگی یا طرز عمل کی روشنی میں ہی پرکھا جاسکتا ہے یہی وجہ تھی کہ جب دوحہ معاہدہ طے پانے جا رہا تھا،پوری دنیا کے اہلِ دانش نے آواز اٹھائی کہ طالبان کی یقین دہانیاں وقت کےساتھ سراب ثابت ہونگی ، خود امریکی میڈیا کے اندر سے بھی کھلے بندوں اس نوع کے تحفظات کااظہار کیا گیا لیکن امریکی انتظامیہ کو بوجوہ شتابی تھی کہ کسی بھی طرح اس لاحاصل جنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے وہ اپنی فورسز کو واپس لے جائے یوں اس جلد بازی میں بہت سے بلنڈرہو گئے۔
اشرف غنی حکومت اور اس کی صلاحیت سے متعلق بھی امریکی انتظامیہ کے اندازے غلط ثابت ہوئے امریکی ہمارے خطے کی سائیکی کو درست طور پر سمجھنے سے قاصر رہے ان کا خیال تھا کہ دو لاکھ کے قریب فورس جنہیں خود انکےلوگ ٹریننگ دیتے رہے کہ یہ ایک قومی ریاست کی فورس بن کر کارکردگی دکھائے گی،تاہم وقت آنے پریہ فورس ریت کی دیوار ثابت ہوئی تب امریکیوں کو سمجھ آیا کہ انکی بھاری رقوم کس طرح ہڑپ کی جا رہی تھیں۔
دوسری طرف امریکہ پاکستان کابھی شاکی رہا اور اس پر ڈبل گیم کے الزامات دھرتا رہا ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کسی بھی حوالےسے پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے ۔
آخر ہم حقائق کا انکار کیسے کر سکتے ہیں 15اگست 2021ء کے فوری بعد ہمارا وزیر اعظم جب عالمی میڈیا کے سامنے یہ کہہ رہا تھا کہ’’ طالبان کی فتح درحقیقت اسلام کی فتح ہے اور یہ کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں ‘‘کہنے کو باتیں اس سے آگے بھی بہت سی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ایسی ذہنیت کے خاتمے کیلئے کیا یہاں کوئی اہتمام کیا گیا؟ہمارے یہاں آج بھی اس پر کھل کر لکھنے یا بولنے کی اجازت نہیں آج بھی باتوں کو گھما پھرا کر یوں تشریحات کی جاتی ہیں کہ گویا ٹی ٹی پی کوئی بڑی اچھی تنظیم ہے، اس سوچ کے زیر اثر گڈ طالبان، بیڈ طالبان کی اصطلاحات گھڑی جاتی رہیں،اب انہیں کون سمجھائے کہ طالبان کا یہ بیان بھی پیش نظر رہے کہ ہمارا معاہدہ امریکیوں سے تھا پاکستانیوں سے نہیں۔
باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے جلسے پر جو خودکش حملہ ہوا ، اس میں ساٹھ کے قریب پاکستانی اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور دو سو کے قریب زخمی ہیں اس پرواویلا مچانے والوں کےسامنے درویش کا سوال ہے کہ اصلیت کو تسلیم کیوں نہیں کر لیتے ؟ان مظلوموں کا خون اس جنونی ذہنیت پر ہے جس نے یہ جہادی پال رکھے ہیں ۔ذرا اس ’’بھارت نواز‘‘ امریکی پٹھو اشرف غنی حکومت کے دورانیے کا موجودہ دو سالہ طالبانی حکومت سے تقابل تو کرکے دیکھو پیہم کے پی اور بلوچستان کے سرحدی ایریاز میں موت کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اور جو اب مزید آگے بڑھنے والا ہے ،حسب معمول کہہ دو کہ یہ سب انڈیا اور را کا کیا دھرا ہے۔ ہمارےوزیر اعظم نے تو بیان داغ بھی دیا ہے کہ میں پھر مذاکرات کی پیشکش کر رہا ہوں ، جوہری تصادم ہوا تو یہ بتانے کیلئے کوئی نہیں بچے گا کہ ہم کون تھے۔
جناب ،بہتر ہے کہ مشرق کی طرف منہ کرکے یہ بھڑاس نکالنے کی بجائے اپنا منہ مغرب کی طرف کریں جہاںہر آئے دن مظلوم اور دکھی بے گناہ عوام خودکش حملوں کے ذریعے خون میں نہلائے جا رہے ہیں آپکی حکومت تو چند روز میں ختم ہونے جارہی ہے، اپنے کرم فرمائوں سے بات کریںکہ ان تڑپتےلاشوں کا سوچیں اور یہ کہ عوامی دکھوں کا مداوا کیسے کرنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں