سب سے پہلے جان لیجیے کہ بچے کی نشوونما کا اندازہ کیسے لگایا جاتاہے ۔
بتیس ہفتے کی حاملہ عورت گئی ڈاکٹر کے پاس ۔ اب ڈاکٹر کو اس کے پیٹ پر سے رحم کا سائز ناپنا ہے ۔ پرانا طریقہ ہاتھ کی انگلیوں کی چوڑائی ہے جو ناف کے اوپر رکھ کر دیکھی جاتی تھیں ۔ نیا طریقہ درزی کی انچ اور سینٹی میٹر والی ٹیپ ہے ۔ بتیس ہفتے پہ اگر بتیس سینٹی میٹر اونچا رحم ہو تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ۔ تھوڑا بہت مارجن دیا جا سکتا ہے ۔
لیکن اگر بتیس ہفتوں پہ رحم کی اونچائی اٹھائیس یا چھتیس نکل آئے تو اب گائناکالوجسٹ کے کان کھڑے ہو جانے چاہئیں ۔
کیوں ہے رحم چھوٹا یا بڑا ؟
یہ ہے بنیادی سوال ۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے الٹراساؤنڈ اہم ہے جس میں بچے کا وزن دیکھا جائے گا ۔ بتیس ہفتوں پہ بچے کا وزن 1.7 کلو ہونا چاہیے ۔
باقی ہفتوں پہ بھی ہم آپ کو بتا دیتے ہیں کہ کتنا وزن ہونا چاہئے ۔
نارمل حالات میں اٹھائیس ہفتوں سے پہلے عموماً وزن نہیں ناپا جاتا جب تک کوئی مشکل نہ آن پڑے ۔
اٹھائیس ہفتے: 1.1 kg
تیس ہفتے : 1.4 kg
بتیس ہفتے : 1.7 kg
چونتیس ہفتے : 2 کلو
چھتیس ہفتے : 2.4 kg
اٹھتیس ہفتے : 2.7 kg
اگر بچے کا وزن ٹھیک ہے تو پانی کم ہونے کا چانس بہت کم ہے ۔ اگر بچے کا وزن کم نکلا ہے ، تب ضرورت ہے کہ پانی کی جانچ کی جائے اور ساتھ میں ڈوپلر الٹرا ساؤنڈ کیا جائے ۔ ڈوپلر الٹرا ساؤنڈ میں آنول نال سے بچے کی طرف دوڑتا خون یہ بتائے گا کہ بچے میں خون کی گردش کیسی ہے ؟
کم وزن کے ساتھ اگر ڈوپلر اور پانی دونوں ٹھیک ہیں ، بچے کی حرکت دس بار ہو رہی ہے تب ضرورت ہے کہ دو ہفتے بعد الٹرا ساؤنڈ دوبارہ کیا جائے اور پانی وزن اور خون کی گردش دیکھی جائے ۔ دو ہفتوں کے بعد والا الٹرا ساؤنڈ تشخیص کے لیے بہت اہم ہے ۔ دو صورت حال سامنے آئیں گی ۔
پہلی جس میں بچے کا وزن کچھ بڑھ گیا ہے گو کہ مطلوبہ معیار سے ابھی بھی کم ہے ، ساتھ میں پانی ، حرکت اور ڈوپلر بالکل نارمل ہیں ، اس صورت حال کو SGA baby یا small for gestational age کہیں گے ۔ یہ بچہ بالکل تندرست بچہ ہے بس اس کا وزن جنیاتی طور پہ کم ہے ، یا تو ماں بہت دبلی پتلی ہے اور خاندان میں چھوٹے افراد پائے جاتے ہیں ۔ اس میں فکر کی کوئی بات نہیں ۔
دوسری صورت حال جس میں وزن میں اضافہ نہیں ہوا / یا اگر ہوا ہے تو بہت کم ، پانی بھی کم یا گیا ہے ، بچہ حرکت بھی سستی سے کر رہا ہے اور خون کی گردش بھی متاثر ہے ، اس صورت حال کو Intra uterine growth retardation یا IUGR کہتے ہیں ۔
IUGR کے اسباب میں کروموسومز کی گڑبڑ کے علاوہ حمل کے دوران ہونے والی انفکشنز ، ماں کا ہائی بلڈ پریشر ، گردے کی تکلیف اور آنول نال کا صحیح نہ بننا شامل ہیں ۔ آنول نال عموماً پہلے حمل میں بہت تنگ کرتی ہے ۔
IUGR وہ بچہ ہے جس کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ۔
ماں کو اگر ہائی بلڈ پریشر ہے تو اس کا کنٹرول لازمی ہونا چاہئے ۔ بلڈ پریشر نیچے کرنے والی ادویات حمل میں محفوظ ہیں ۔ روزانہ ایک یا دو بار بلڈ پریشر چیک اور اس بچے کو ہفتہ وار مانیٹرنگ چاہئے ۔ اس مانیٹرنگ میں بچے کی حرکت اور خون کی گردش دیکھی جاتی ہے ۔ خون کی گردش جونہی ایک خاص لیول سے کم ہو ، بچے کو پیدا کروا لینا لازم ہے ۔ اگر بلڈ پریشر بہت ہائی ہو جائے اور نیچے نہ آرہا ہو تب بھی بچے کو پیدا کروا لینا چاہیے ۔
اگر IUGR بچہ چھتیس سینتیس ہفتے تک پہنچ جائے تب بھی اسے پیدا کروا لینا چاہئے ورنہ پیٹ میں مر جانے کا ڈر ہوتا ہے ۔
SGA baby کو انتیس سے چالیس ہفتوں پہ پیدا کروا لینا چاہئے ۔
ہمیں برسوں کے بعد علم ہوا کہ ہماری بڑی بیٹی SGA تھی لیکن اس وقت ایم بی بی ایس ہونے کے باوجود ہم نہیں جانتے تھے کہ SGA کیا بلا ہے ؟ نہ تو حمل چیک کرنے والوں نے تشخیص کی اور نہ ہی ہمیں بتایا ۔
بہت سے لوگ پری ٹرم بچوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ چھ ماہ یا سات ماہ کا حمل تھا ، گروتھ نہیں ہو رہی تھی سو ڈاکٹر نے سیزیرین کر کے نکال لیا لیکن بچے کی کچھ دنوں کے بعد موت ہو گئی , کیوں ؟
ایک بات سمجھ لیجیے ؛ چھ سات ماہ اور بعض اوقات آٹھ ماہ کے بچے کے بچنے کے امکانات پاکستان میں بہت کم ہیں ۔ بڑے ہسپتالوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا اور چھوٹے ہسپتالوں میں سہولیات موجود نہیں ہوتیں ۔ سو اگر کوئی ڈاکٹر سات آٹھ ماہ کے حمل میں سیزیرین کروانے کا مشورہ دے رہا ہے ، تب سب سے پہلے یہ جانیے کہ ایسے بچوں کا survival rate اصل میں کیا ہے ؟ اگر امکانات زیادہ نہیں جو کہ زمینی حقیقت ہے ، تب سیزیرین کروا کر بچہ پیدا کرنے کا کیا فائدہ ہو گا ؟ آپریشن بھی کروایا اور بچہ بھی نہ بچا۔
وقت کی ریاضت نے آج ہمیں اس قابل کر دیا ہے کہ ہم آپ کو آسان زبان میں یہ سب سمجھا سکیں ۔ سو اس علم کو اپنا ہتھیار بنا لیجیے ، زندگی کا سفر آسان ہو جائے گا ۔