حماد غزنوی

لاڈلا کون ہے؟

دوپہر اور رات کے کھانے میں تو ہم تنوع کی خواہش رکھتے ہیں مگر ناشتے میں یکسانیت قبول کر لیتے ہیں، پتا نہیں ایسا کیوں ہے، خیر، کل صبح جب ہم انڈہ توس اور چائے کی پیالی کے منتظر تھے تو اطلاع ملی کہ آج ناشتے میں حلوہ پوری، سری پائے ، آملیٹ پراٹھا اور کھِیرملے گی، اس غذائی اوباشی کے اسباب پوچھے گئے تو پتا چلا کہ ہمارے خان ساماں سلیم رحمانی کے مرشد صبح صبح چکوال سے تشریف لائے ہیں، اور یہ اہتمام ان کے اعزاز میں کیا گیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں زبانِ حال سے ’’میں شکّر ونڈاں‘‘ کا ورد کرتا ہوا، سلیم ہانپتا کانپتا کمرے میں داخل ہوا اور اعلان کیا کہ ’سرکار‘ کی زیارت کے لیے مہمان خانے میں تشریف لے آئیے۔
سرکار کا قد میانہ، ریش مبارک سفید اور طویل، سر پر لال ٹوپی اور گلے میں لال دوپٹہ تھا، سرکار فرمانے لگے کہ مجھے سلیم نے بتایا ہے کہ آپ کی دُختر کی طبیعت ناساز ہے لہٰذا میں خود آیا ہوں، اور اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنا سر سجدے میں مار مار کر لہو لہان کر لوں گا جب تک کہ آپ کی بیٹی کو شفا نہیں مل جاتی، ضد کروں گا، اور اپنے لاڈلے کی ضد ’اسے‘ ماننا ہی پڑے گی، کشادگی رزق کی دعا کی درخواست کو انہوں نے ـ’چھوٹا کام‘ قرار دیا، مسکراتے ہوئے فرمانے لگے ہمیں پتا ہے ’وہ‘ اپنے پیسے کہاں رکھتا ہے، جتنے چاہیے ہوں گے نکال لیں گے، پھر قدرے توقف کہ بعد سگریٹ نوشی کی اجازت چاہی، اور سگریٹ سلگا کر بتانے لگے کہ میں ایک دن میں ستائیس ڈبیاں مارون کی پیتا تھا، پھر ایک ہی دن میں بیس ڈبیاں کم کر دیں اور اب فقط سات ڈبیاں پیتا ہوں، عمر پوچھی تو سرکار ہمارے اندازے سے دس سال چھوٹے نکلے، پھر انہوں نے پانی کی ایک بوتل پر دم پڑھا، جس پر سلیم نے سرگوشی کی کہ آج سے بیٹی کی سب دوائیں بند، بس یہ پانی کافی ہے، سلیم کے چہرے کا یقین دیدنی تھا۔کچھ دیر بعد سرکار نے حکم دیا کہ ایک گھنٹے بعد داتا صاحبؒ کے مزار پر انہیں دو کھونڈیاں، تین لائٹر اور پانچ ڈبیاں سگریٹ کی پہنچا دی جائیں۔ سرکار رخصت ہونے لگے تو ان سے ان کا نامِ مبارک پوچھا گیا، فرمانے لگے میرا نام قلندر لال ، میرے پیر کا نام لال و لال ، اور ہمارے مریدین لال و لالوی کہلاتے ہیں۔پھر سرکاراپنے مرید سے تحفے میں ملی نئی ہونڈا سِوِک میں بیٹھے اور داتا دربار روانہ ہو گئے۔
اب سرکار کے جانے کے بعد کالم لکھنے بیٹھے تو دماغ یک سُو نہیں ہو پا رہا، خیال تھا کہ آج عمران خان کے سیاسی مستقبل اور لیول پلئینگ فیلڈ کے موضوع پر کچھ رائے زنی کی جائے مگر کانوں میں سرکارکی آواز گونج رہی ہے ’’لال و لال، لال و لال‘‘، اور دوسرا موضوع الیکشن کی تاریخ سے متعلق تھا جو ابھی تک مارون کے سینکڑوں سگرٹوں کے مرغولوں کے عقب میں چھپی ہوئی ہے ۔ دیکھیے، پھر سرکار کا ایک جملہ یاد آ گیا، فرماتے ہیں ’’اپنے لاڈلے کی ضداسے ماننا ہی پڑے گی‘‘، جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ لاڈلے کیسے بنے ہیں تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا کہ ’’اوکھے پینڈے لمیاں نیں راہواں عشق دیاں‘‘۔ یہ بڑی حکمت کی بات ہے، بے شک، لاڈلا راتوں رات نہیں بنا جا سکتا، یہ ایک طویل خارزار ہے، برسوں پر محیط، سیاست کے میدان میں ہی دیکھ لیجیے، عمران خان صاحب کے ساتھ لاڈ پیار کا آغاز دہائیوں پہلے حمید گُل صاحب نے کیا تھا اور پھر چل سو چل، کم از کم تین چیفس اور چار ڈی جی آئی صاحبان اس داستانِ ناز کے مرکزی کردار رہے ہیں، اگر کسی نے لاڈلے پر بری نظر بھی ڈالی تو اس کی انکھیں نوچ لی گئیں، جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے میر شکیل الرحمان تک، مثالیں ہی مثالیں ہیں، میڈیا کی گردن سال ہا سال دبا کر رکھی گئی، احکام یہ تھے کہ کہیں ایسی چوں بھی نہ ہو جو نازنین کو ناگوار گزرے۔ عدالتیں دوزانو بیٹھ کر لاڈلے کے کیس سنا کرتی تھیں، صادق اور امین کے فتاویٰ جاری فرماتیں اور حضرت جو اوٹ پٹانگ منی ٹریل جمع کرواتے اسے چوم چاٹ کر قبول کر لیتیں۔ یہ ہوتا ہے لاڈلا۔ آج کی صورت احوال کچھ یوں ہے کہ عمران خان مسندِ دل بری سے معزول ہو چکے ہیں اور احباب مُصر ہیں کہ اب اس منصب پر نواز شریف جلوہ آرا ہیں۔دلیل ان کی یہ ہے کہ نواز شریف کی ضمانتیں چٹکیاں بجاتے ہو رہی ہیںاور ریاست کا مجموعی رویہ ان کی طرف احترام کا ہے۔ اس حلقہء فکر سے درخواست ہے کہ آپ کے سب دلائل سر آنکھوں پر مگر کسی فیصلے تک پہنچنے میں جلد بازی نہ فرمائیں، اور یہ لفظ ’لاڈلا‘ تو بہت ہی احتیاط سے استعمال کریں، جس طرح ’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘ ، اسی طرح ضمانت ملنے پر ہر کوئی لاڈلا نہیں بن جاتا۔ ’لاڈلا‘ تو ریاستی عشق کی آخری منزل ہے جہاں ہر ادارہ اسی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا ہے۔
نواز شریف کو تو پاکستان پہنچنے سے چند گھنٹے پہلے سپریم کورٹ سے خبر ملی کہ انہیں اپنے خلاف فیصلے پر اپیل کا حق نہیں دیا جائے گا، یعنی وہ عدالتی فیصلے کے تحت ’جھوٹے‘ اور ’خائن‘ ہی رہیں گے۔ لاڈلے ایسے ہوتے ہیں؟ آج کے دن تک بھی یہ علم نہیں ہے کہ نواز شریف کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں، آج بھی سرگوشیاں ہو رہی ہیں کہ بہ طور وزیرِ اعظم چھوٹا بھائی قبول ہے، بڑا نہیں۔ ایسے ہوتے ہیں لاڈلے؟ نواز شریف لاڈلا نہیں، مجبوری ہے، حالات کا جبر ہے، ورنہ پچھلے پچیس سال میں نواز شریف کو مٹانے کی خواہش میں اس ملک کو یوں بدحال اور ’لال و لال‘ نہ کیا جاتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں