سورۃ البقرۃ ۔ 221
🍁ترجمہ🍁
(اے مسلمانو!) خبردار مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو۔ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ (کیونکہ) ایک مؤمنہ کنیز مشرکہ (آزاد عورت) سے اچھی ہے اگرچہ (حسن و جمال میں) تمہیں کتنی ہی بھلی معلوم ہو۔ اور مشرک مردوں کے نکاح میں اس وقت تک نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ بے شک مسلمان غلام مشرک (آزاد شوہر) سے بہتر ہے۔ اگرچہ وہ (مشرک) تمہیں کتنا ہی بھلا معلوم ہو۔ یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور خدا اپنے حکم سے (تمہیں) جنت اور مغفرت (بخشش) کی طرف بلاتا ہے۔ اور اپنے احکام کو لوگوں کے سامنے واضح طور پر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت قبول کریں (اثر لیں)۔
🍁🍁تفسیر🍁🍁
قرآن میں ”مشرکین“ کا لفظ زیادہ تر بُت پرستوں کے لیے استعمال کیاگیاہے۔ لہٰذا جہاں کہیں یہ لفظ آئے، یہ تو مسلم ہے کہ اس کے مفہوم میں بت پرست ضرور شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیات میں مشرکیں کا لفظ اہل کتاب (یہود ، نصاریٰ اور مجوس) کے مقابلے میں آیاہے۔ بعض مفسرین کا اعتقاد ہے کہ مشرک کے مفہوم میں یہود، نصاریٰ اور مجوس سمیت سب کفار شامل ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ہر فریق خدا کے شریک کا قائل ہے۔ نصاریٰ تثلیث کے قائل ہیں ، مجوس تنویت یا دوگانہ پرستی پر اعتماد رکھتے ہیں، اور یہودی عزیر(ع) کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں۔ یہ عقائد اگر چہ شرک آور ہیں لیکن اِس طرف دیکھتے ہوئے کہ قرآن کی بہت سی آیات میں مشرک، اہل کتاب کے مقابلے میں آیا ہے، قرآنی اصطلاح میں اس کا مفہوم بت پرست ہی نکلتا ہے۔ پیغمبر اسلامؐ سے منقول ایک مشہور حدیث ہے۔ اس میں آپؐ نے اپنی وصیتوں میں فرمایا ہے کہ مشرکین کو حتمی طورپر جزیرة العرب سے نکال دو۔ اس میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ مسلم ہے کہ اہل کتاب جزیرة العرب سے نہیں نکالے گئے اور وہ جزیہ ادا کر کے ایک مذہبی اقلیت کے طور پر اسلام کی پناہ میں زندگی بسر کرتے رہے۔اس بناء پر مندرجہ بالا آیت میں اہل کتاب شامل نہیں ہیں۔ ”و لا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا و لعبد مؤمن خیر من مشرک و لو اعجبکم“۔
جس طرح مومن مردوں کو مشرک اور بت پرست عورتوں سے شادی کرنے سے منع کیا گیا ہے اس جملے میں کافر اور مشرک مردوں سے مسلمان عورتیں بیاہنے سے روکا گیا ہے۔ نیز جس طرح مومن کنیزیں کافر آزاد عورتوں سے شادی کی نسبت بہتر ہیں چاہے کافر عورتیں حسن و جمال اور مال و منال میں بالاتر ہی کیوں نہ ہوں اسی طرح صاحب ایمان غلام، خوبصورت اور بظاہر با حیثیت کافروں سے برتر اور بہتر ہیں لیکن مومن عورتوں کی شادی کافر مردوں سے اس وقت تک منع ہے جب تک وہ کافر ہیں اور اگر وہ ایمان قبول کر لیں تو ان سے شادی کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ یہ بازگشت کا ایک راستہ ہے جس کی طرف آیت کی ابتداء میں بھی اشارہ ہوا ہے۔ ”اولئک یدعون الی النار و اللہ یدعوا الی الجنة و المغفرة باذنہ“ اِس جملے میں اہل ایمان کی مشرک اور بت پرستوں سے شادی کرنے کی حرمت کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ مشرک سے شادی کرنا اس لیے حرام ہے کہ مشرک انسان اپنے ساتھی کو بت پرستی اور ایسی ناپسندیدہ صفات کی دعوت دیتا ہے جن کا سرچشمہ بت پرستی ہے ، خصوصاً بت پرست سے یہ معاشرت کے بہت خطرناک ہے اور اس کے اثرات بہت زیادہ اور بہت گہرے ہیں۔گویا بت پرست سے معاشرت کا انجام غضبِ خدا کے آگ کی سوا کچھ نہیں۔ خلاصہ یہ کہ بت پرستوں سے آشنائی خصوصاً شادی بیاہ کے دریچے سے خدا سے نا آشنائی کے مترادف ہے اور ان سے نزدیکی خدا سے دوری کا باعث ہے جب کہ مومنین اپنے ایمان اور سرچشمۂ ایمان سے پھوٹنے والی بلند صفات کی بدولت اپنے ساتھیوں کو ایمان اور فضیلت کی دعوت دیتے ہیں جس کا انجام جنت، مغفرت اور خدا کی بخشش ہے۔ مومنین کا رابطہ چونکہ خدا سے بہت گہراہے اس لیے آیت میں خدا نے مومنین کے بجائے اپنا نام لیا ہے ۔ فرماتا ہے:
” و اللہ یدعو الی الجنة و المغفرة باذنہ“ ممکن ہے خدا کی دعوت سے مراد بت پرستوں سے شادی کی حرمت کا حکم ہی ہو، جس کا نتیجہ جنت اور خدا کی مغفرت ہے اور اس میں بھی کوئی مانع نہیں کہ یہ آیت دونوں مفاہیم کی حامل ہو۔
_____
التماس دعا
ارشد اسدی الحسینی
