اسداللہ خان غالبؔ نے دو مصرعوں میں کامل بے اختیاری کی ایک بے مثال تصویر بنائی ہے، فرماتے ہیں ’’رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے…..نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘۔ غالب نے یہ شعر تخلیقِ پاکستان سے لگ بھگ سو سال پہلے باندھا تھا، لیکن لگتا یوں ہے گویااس ملک کی 76ویں سال گرہ کے موقعے پرکہا گیا ہے، اس بے ایال توسن کے کروڑوں سواروں کی بے اختیاری کی کہانی، نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں، بے سمتی کے سفر کا غبار پھانکتے، بجھی ہوئی پیشانیوں والے، ڈرے ہوئے لوگ، ایک اسپِ بے لگام کے رحم و کرم پر اپنے انجام کی طرف رواں۔
کاغذوں میں تو طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، لیکن درحقیقت ’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘۔76 سال میں کبھی ان کے ہاتھ میں باگ پکڑائی ہی نہیں گئی، کبھی انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ یہ خود اپنی سمت کا فیصلہ کر سکیں، اور آج بھی ان کے بارے میںطاقت وروں کی یہی رائے ہے کہ عوام کے ہاتھوں میں بجلی اور گیس کے بل ہی اچھے لگتے ہیں، رخشِ وطن کی باگیں نہیں۔ عام پاکستانی پر بد اعتمادی کا یہ سلسلہ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی آغاز کر دیا گیاتھا۔ عوام کو فیصلہ سازی سے باہر رکھنا ہے، کیوں کہ اگر عوام کو یہ حق مل گیا تو ان کا سب سے پہلا فیصلہ طاقت وروں کے خلاف ہو گا جنہوں نے کروڑوں لوگوں کے وسائل ہڑپ کر رکھے ہیں۔ بس یہی سادہ سا ایجنڈا 1947 میں طے کیا گیا، وہ دن اور آج کا دن، اس ملک کی تنومند اشرافیہ نے عام پاکستانی کو ریڈ کارڈ دکھا کر فیصلہ سازی کے میدان سے باہر نکالا ہوا ہے۔
بس یہی ایک وجہ ہے کہ روزِ اول سے طاقت وروں کو انتخابات کے نام سے چِڑسی ہو گئی تھی، کیوں کہ انتخاب اور تسلسل سے انتخاب ہی آخر عوام کواپنے بارے میں فیصلے کرنے کی طاقت عطاکرتے ہیں۔آپ کا کیا خیال ہے کہ جب قیامِ پاکستان کے بارہ سال بعد آخرِ کار الیکشن کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا تو مارشل لا کیوں لگا دیا گیا تھا؟ مادرِ ملت فاطمہ جناح کو 1965 کے صدارتی انتخاب میں دھاندلی کر کے ہر قیمت پر ہرانا کیوں ضروری سمجھا گیا تھا؟ اور تو اور طاقت وروں کو ملک کا ٹوٹنا منظور تھا مگر عوام کو فیصلہ سازی کا اختیار دینا قبول نہیں تھا۔ملک میں چار مارشل لا لگنے کی بہ ظاہر مختلف وجوہ بیان کی گئیں، مگر مسئلہ ایک ہی تھا۔آج تک ملک میں جتنے انتخابات منعقد ہوئے بیش و کم ان سب کے نتائج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ضروری سمجھی گئی، اور ان سب چھیڑ خانیوں کی وجہ ایک ہی تھی۔ اس ملک کی باگیں عوام کے ہاتھ میں نہیں جانے دینیں، وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہونے دینی، خواہ کچھ بھی ہو جائے۔ لمحہ بھر کواپنے تعصبات سے اوپر اٹھ کر سوچئے 2018 کہ الیکشن سے پہلے نواز شریف کو جیل میں ڈالنا کیوں لازم قرار پایا تھا، اس لیے کہ نواز شریف کرپٹ تھا؟اور اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ آج عمران خان اس لیے جیل میں نہیں ہے کیوں کہ اس نے توشہ خانے سے تحفے چرائے ہیں۔یہ فلم ہم نے دیکھ رکھی ہے، اور یہ فلم فلاپ ہو چکی ہے، اور یہ جو ’شرطیہ نیا پرنٹ‘ کا دعویٰ ہوتا ہے اس کی اصلیت بھی ہمیں معلوم ہے۔ نگران وزیرِ اعظم کی تعیناتی میں بھی نشانیاں ہی نشانیاں ہیں۔اس ایک فیصلے پر غور کریں تو ساری بات سمجھ آ جاتی ہے، ہم نے اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ ہم اپنی غلطیوں پر مان کرتے ہیں۔ ’باپ‘ سے ’بیٹے‘ تک، ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔اس چودہ اگست پر ہم نے ایک بار پھر ’تجدیدِ عہد‘ کی ہے، یعنی ہم سدھرنے والے نہیں، یعنی کچھ بھی ہو جائے ہم نے اس گھوڑے کی باگیں نہیں چھوڑنیں،، گھوڑا لنگڑا ہو چکا ہے، گھوڑا ریس سے باہر ہو چکا ہے، لیکن اس کی لگام نہیں چھوڑیں گے، کر لو جو کرنا ہے۔
ملک کے دو مقبول ترین راہ نمائوں میں سے ایک جیل میں ہو دوسرا جلا وطنی میںتو ایسے سیاسی نظام سے کیا توقعات باندھی جا سکتی ہیں۔ کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ نگران وزیرِ اعظم کی تقرری میں نواز شریف کی رائے کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گی، ان کی بھی ’تسلّی‘ ہو گئی ہے، 1993 میں کاکڑ فارمولے کے نتیجے میں دونوں فریقین کی چھٹی کروا دی گئی تھی، 2023کے کاکڑ فارمولے کے خدوخال بھی لگ بھگ ویسے ہی ہیں، پاور شیئرنگ کا موڈ نہیں لگ رہا، اسی لئے ایک طویل دورانیے کی نگران حکومت کی خبریں تسلسل سے سننے میں آ رہی ہیں۔ پرو جیکٹ عمران سے یہ سبق سیکھا گیا ہے کہ کسی سیاست دان کو دل نہیں دینا، کانوں کو ہاتھ لگا کر عاشقی سے توبہ کر لی گئی ہے۔تو اب صورتِ احوال کچھ یوں ہے کہ عمران خان بھی قبول نہیں ہے اور نواز شریف بھی نامنظور ہے، یعنی ہر کوئی قبول ہے مگر مقبول رہنما نہیں چاہیے، کیوں کہ مقبولیت سے دماغ میں ایک کیڑا کلبلانے لگتا ہے، اور فرمائش کرنے لگتا ہے کہ ’باگیں میرے ہاتھ میں پکڑا دی جائیں‘۔
ان حالات میں انتخابات سے کیا توقع باندھی جا سکتی ہے؟ انتخابات تو ہم بہت سے دیکھ چکے ہیں، اقتدار کی منتقلی نہیں دیکھ سکے، اور اس منتقلی کے آثار ابھی دور دور تک نظر نہیں آتے، مجید امجد نے کہا تھا ’’وہ رُت اے ہم نفس جانے کب آئے گی؟ وہ فصلِ دیر رس جانے کب آئے گی، یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی۔‘‘
