خوف ایک ایسے جذبے کا نام ہے جو ہم پرغالب آجائے تو ہم ناکام ہیں اور اگر ہم خوف پر غالب آجائے تو کامیاب ہیں۔ ہم میں سے بیشتر افراد میں لوگوں کا خوف اس قدر بھر چکا ہے کہ ہمارا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی بجائے لوگوں کی رائے پر مبنی ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں خود سے زیادہ دوسروں کی فکر ہر وقت گھیرے رکھتی ہے ہماری زندگیوں میں لوگوں کا اس قدر عمل دخل ہے کہ سادہ زندگی مشکل ترین بن چکی ہے اور یہ اختیارہم نے خود لوگوں کو دیا ہے۔ ایک امیر بھائی اپنے غریب بھائی کی مدد اللہ تعالیٰ کی بجائے لوگوں کے خوف سے کرتا ہے اگر میں اُس کی مدد نہیں کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے؟ ایک لڑکی کا باپ لوگوں کے خوف سے لڑکے کے گھر رشتہ لیکر نہیں جاتا یاد رکھیں حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کے پاس خود شادی کا پیغام بھیجاتھا، کسی کی بیٹی کی شادی نہ ہو رہی ہوتو اُس کے گھر والوں سے زیادہ ہمارے معاشرے کے لوگوں کو ف کر ہوتی ہے، لڑکی کی عمر بڑھ رہی ہے تو اُس کے والدین سے زیادہ ہمارے معاشرے کو اُس کی فکر ہوتی ہے اِسی کے ساتھ ساتھ اگر ہم سنتِ نبوی دیکھیں تو حضرت خدیجہؑ کی شادی 40سال کی عمر میں آپ ؐسے ہوئی جبکہ آپؐ کی عمراُس وقت محض 25 سال تھی۔ ہم نے پیچیدہ چیزوں کو آسان بنانے کی بجائے آسان چیزوں کو پیچیدہ بنا کر رکھ دیا ہے لوگوں کی رائے ہم خود پر اس قدر مسلط کر لیتے ہیں کہ اپنے بنتے معاملات بگاڑ لیتے ہیں نتیجتاً ناکامی ہماری زندگی کاحصہ بن جاتی ہے۔ لوگ کسی حال میں خوش نہیں ہوتے یہ جانتے ہوئے بھی ہم لوگوں کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
لوگوں کی رائے لینا غلط نہیں ہے لیکن اُس رائے کو خود پر مسلط کرکے ذہنی طور پرخود کو پریشان رکھنا غلط ہے۔ لوگ کیاکہیں گے؟ یہ جملہ ہمارے معاشرے میں بولے جانے والا عام جملہ ہے جیسے ہم نے خودپر اسقدر حاوی کرلیا ہے کہ ہم حقیقت پسند ہونے کی بجائے دکھاوے کی زندگی گزار رہیں ہیں۔ ہم اس قدر دکھاوا کرتے ہیں کہ خود کی غلطیوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے وکیل بن کر اپنا مقدمہ لڑتے ہیں اور دوسروں کی غلطیوں پر اُن کے شرمندہ ہونے کے باوجود جج بن کر فیصلہ سناتے ہیں۔ ہم ذہنی اور لاشعوری طور پر اس قدر لوگوں کے محتاج ہوگئے ہیں کہ ہمارا ہرعمل ا للہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ لوگوں کو راضی کرنے کے لیے ہوگیا ہے۔ بقائے انسان معاشرے کے بغیر ممکن نہیں ہے بعض معاملاتِ زندگی میں ہمیں انسانی سہارے کی ضرورت پڑ جاتی ہے، اور عقلمند وہی انسان ہوتا ہے جواس عارضی سہارے کو بلا جواز خود پر غلبہ حاصل نہ کرنے دے۔ لوگ کیاکہیں گے اس جملے نے انسان کو ایک زنجیر کی مانند قید کر اُس کے خواب آنکھوں سے چھین کر کرچیوں میں بکھیر دیے ہیں۔ جو لوگ کسی کا م کے ابتداء میں ہی لوگوں کی سوچ کی پرواہ کرتے ہیں وہ اِسی خوف کی بدولت اپنے کام میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ اس جملے کا اثر انسان کی پوری شخصیت پر پڑتا ہے اور وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتاہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے، اور ہم میں سے بیشتر افراد ساری عمر اسے لوگوں کے خوف میں گزار کر اِس کی ناشکری کرتے ہیں۔ ہمارے ذہن پرلوگوں کا خوف اسقدر حاوی ہے کہ ہم اپنی رائے کا اظہار بھی کھل کر نہیں کر سکتے۔ اگرہم ہمہ وقت لوگوں کے خوف میں رہیں گے تو کبھی بھی اپنے خوابوں کو تکمیل تک نہیں پہنچا پائیں گے۔
دنیاکاسب سے بڑا روگ
کیا کہیں گے لوگ
آجکے دور میں ہم خود غلط ہوتے ہوئے دوسروں کی اصلاح کرنے میں لگے ہیں کیا ہی اچھا ہو اگر ہم لوگوں کی بجائے خود کی صحیح اصلاح کرلیں۔ کیوں نہ ہم ہر عمل سے پہلے لوگوں کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے رب کے بارے میں سوچیں؟ کیا ہمارے عمل سے ہمارا رب ہم سے راضی ہوگا؟ کہا جاتا ہے اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے بہتر انسان کی نیت کو کون جان سکتا ہے بھلا؟ زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں، جو لوگوں کی بجائے خود اپنے بارے میں رائے قائم کریں اور اُس ذاتِ باری تعالیٰ کو راضی کرلیں۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ راضی ہوگا، انسان زندگی کے ہرمیدان میں فتح یاب ہوگا ہماری تخلیق کاپہلا مقصد اپنے رب کے حکم کی پیروی کرنا ہے اُس کی عبادت اور حمد و ثناء بیان کرنا ہے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیں! اگر آج ہم سے ہماری سانسیں چھین لیں جائیں تو ہم آخرت میں اپنے ساتھ کیا لے کر جائیں گے؟ یاد رکھیں لوگ تو لوگ ہیں کچھ بھی کہیں گے یہ نہ تو ہماری دنیا سنوار سکتے ہیں نہ آخرت۔ جو انسان لوگوں کی سوچ کی پرواہ کیے بغیر اپنی زندگی کھل کر جیتا اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کے طے کر دہ پیمانے پر جانچتا ہے تو اللہ پاک اُس سے راضی ہوتاہے کیونکہ اُس کا عمل لوگوں کے لیے نہیں بلکہ اللہ پاک کی ذات کے لیے ہوتا ہے۔ دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں، جنھوں نے لوگوں کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر محنت اور جدوجہد کر کے نام بنایا ہے۔ اگر آپ کا بھی ہر عمل اللہ تعالیٰ کی ذات کو راضی کرنے کے لیے ہے تو آپ کا دل آپ کے عمل پرمطمئن ہوگا اور ان شااللہ سب اچھا ہوگا۔ اب یہ ہم پرمنحصر ہے کہ ہم لوگوں کی رائے پرزندگی گزارناچاہتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق۔
نا عروج دے نا زوال دے
مجھے بس اتنا تو کمال دے
مجھے اپنے رنگ میں ڈھال دے
کہ زمانہ میری مثال دے
