سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین کے مطابق قرار دیا ہے۔سپریم کورٹ نے 10-5 کی اکثریت سے یہ فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس سردار طارق مسعود، ،جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی نے قانون کو برقرار رکھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا۔
اس فیصلے کے بعد چیف جسٹس کے اختیار کم ہوگئے، از خود نوٹس ، بینچز کی تشکیل اور کیس مقرر کرنے کا اختیار چیف جسٹس کی بجائے 3 سینئر ججز کی کمیٹی کے سپرد۔
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں دی گئی اپیل کا حق بھی برقرار رکھا، یعنی مفاد عامہ اور بنیادی حقوق کیلئے از خود نوٹس اور آئینی درخواستوں کے فیصلے کیخلاف اب متاثرہ فریق کو ملے گا۔سپریم کورٹ نے 6-9 کی اکثریت سے یہ فیصلہ سنایا۔
اپیل کے حق میں فیصلہ سنانے والے 9 ججز میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس سردار طارق مسعود، ،جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی ہیں۔ جبکہ 6 ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید نے اپیل کا حق دینے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے 9 ججز کے فیصلے سے اختلاف کیا۔
قانون میں درج تھا کہ اپیل کا اطلاق ماضی کے مقدمات پر بھی لاگو ہوگا، اس معاملے پر سپریم نے 7-8 کی اکثریت سے اپیل کے حق کو ماضی کے اطلاق کو کالعدم قرار دیا۔
ماضی سے اطلاق کی اپیل کی شق کو 8 ججز نے آئین کے خلاف قرار دیا، جن مین جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ،جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ ملک،جسٹس حسن اظہر رضوی، اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
جبکہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس سردار طارق مسعود، ،جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مسرت ہلالی نے ماضی کے فیصلوں پر اپیل کے حق کے قانون کو درست قرار دیا۔