yasir peerzada

اسے کیا کرنا چاہیے؟

پردے پر منظر بدل چکا ہے ، وہ واپس آ گیاہے ،اب اسے کیا کرنا چاہیے ؟
اہلِ دانش کا خیال ہے کہ تاریخ نے اسے ایک اور موقع دیا ہے کہ وہ بڑا آدمی بنے اور امر ہو جائے ، اِس کام کیلئے اسے اپنا دل بڑا کرنا ہوگا، اپنے حریف کو معاف کرنا ہوگا، اُس کیلئے انصاف کا مطالبہ کرنا ہوگاتاکہ اسے کھیلنےکیلئے پورا میدان ملے،اگر وہ ایسا نہیں کریگا اور اسی ڈگر پر چلے گا جس پر اُس کا حریف چلا تھاتو پھر ہم یونہی دائروں میں سفر کرتے رہیں گےاور کبھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ آج وہ دوبارہ آنکھ کا تارا بن گیا ہے کل کو پھر دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے گا، اُس وقت گھڑی کی سوئیاں اِسی طرح اُلٹی گھومیں گی جس طرح آج گھوم رہی ہیں اور یوں کبھی ہم اِس گھن چکر سے باہر نہیں نکل پائیں گے،لہٰذا ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں ضروری ہے کہ وہ نیلسن منڈیلا کی طرح عظمت کا ثبوت دے اور اپنے حریف کے بارے میں دو ٹوک انداز میں کہے کہ اُس کے ساتھ بھی ویسے ہی زیادتی ہورہی ہے جیسی اُس کے اپنے ساتھ ہوئی تھی، یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے اور میں اِس سلسلے کے خاتمے کا آغاز کرتا ہوں۔آخر اُس پر منڈیلا سے زیادہ ظلم تو نہیں ہوا، منڈیلا نے بھی تو اپنے تمام زخم بھلا کر دشمنوں کو معاف کردیا تھا، اُس اقدام کے بعد ہی تو ملک کے آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہوئی تھی،قومیں اسی طرح تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنے لیے راستہ بناتی ہیں۔سو،اگر وہ چاہتا ہے کہ ملک کی سمت درست ہو،معیشت ترقی کرے،قانون کی حکمرانی اورآئین کی بالادستی قائم ہو تو اسے چاہیے کہ وہ تاریخ کے اِس موقع سے فائدہ اٹھائے اور اپنے حریف کیلئے بھی ویسے ہی انصاف کا مطالبہ کرے جیسے وہ اپنے لیے کرتا رہا ہے، ایک مدبر اور رہنما کے طور پر ویسے بھی یہ اُس کا فرض ہے ،لیکن اگر اُس نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا تو پھر ملک کی ترقی کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔ اُس کیلئے یہ کام مشکل ضرور ہے مگراِس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ،اُسکے ارد گرد موجود لوگ کہتے ہیں کہ جب اُس کے حریف نے یہ سلسلہ ختم نہیں کیا تھا تو ہم کیوں کریں۔ہاں،یہ بات درست ہے کہ اُس کے حریف نے یہ کام نہیں کیا تھا حالانکہ ہم اُسے بھی یہی اصولی مشورہ دیتے تھے، اُس نے غلط کیا تھا، مگر اب آپ تو درست کام کریں ،اب ہم آپ کو بھی اصولی مشورہ ہی دے رہے ہیں ،اگر آپ نے بھی وہی کچھ کیا جو ماضی میں ہوتا آرہا ہے تو پھر اِس ملک کی تقدیر بدلنے کا نعرہ فراموش کرکے ہمیں اِس کا ملک کا نام انتقامستان رکھنا ہوگا۔ شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے ’دی مرچنٹ آف وینس‘ میں یہودی ساہوکار شائلوک کہتا ہے :
If you prick us do we not bleed? If you tickle us do we not laugh? If you poison us do
we not die? And if you wrong us shall we not revenge?
یہ فیصلہ اب اسے کرنا ہے کہ کیا وہ تاریخ میں شائلوک بننا چاہتا ہے یا نیلسن منڈیلا!
اہلِ دانش سے اختلاف بہت مشکل ہے، اُن کی زنبیل دلائل سے بھری ہے ،اُنکی باتوں میں وزن ہے ،لیکن یہ وزن ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا گیا ہے ،جبکہ انصاف کا تقاضا ہے کہ دونوں پلڑوں میں وزن برابر ہو۔ اسے نیلسن منڈیلا کی طرح کردار ادا کرنے کا مشورہ تو دیا جا رہا ہے مگر یہ موازنہ درست نہیں ، انگریزی میں اسے False Equivalenceکہتے ہیں۔جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے سربراہ ڈی کلارک نے شدید عالمی دباؤ کی وجہ سے یک طرفہ طور پر ایسے اقدامات کیے تھے جن کی بدولت نیلسن منڈیلا کی رہائی ممکن ہوئی تھی، کلارک نے منڈیلا کی پارٹی سے پابندی اٹھائی ،ملک سے ہنگامی حالت ختم کی اور مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔ اِن اصلاحات کے نتیجے میں سچائی اور مصالحتی کمیشن قائم ہوا جس میں یہ طے پایا کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے دور میں کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا اور ملک میں عام معافی کا اعلان کیا جائے گا، اِن اقدامات کے بغیر نسل پرست حکومت سے جان چھڑانا ممکن نہ تھا۔نیلسن منڈیلا نے ان باتوں پر آمادگی ظاہر کی جس کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوئے اور ملک سے نسل پرستی کا خاتمہ ہوا۔ منڈیلا نےکسی دن اچانک اٹھ کر یکطرفہ طور پر نہیں کہا تھاکہ آج سے میں ڈی کلارک اور اُسکی حکومت کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عام معافی کا اعلان کرتا ہوں کیونکہ یہ بے معنی بات ہوتی۔سوال یہ ہے کہ انتقامستان میں کون نیلسن منڈیلا ہے اور کون ڈی کلارک؟ یہاں تمام مشورے ’اُسے‘ تو دیے جا رہے ہیں مگر کیا اُس کے حریف نے بھی کسی قسم کا عندیہ دیا ہے کہ وہ اُس کے خیر سگالی اقدامات کے جواب میں بیٹھ کر کھیل کے اصول طے کرے گا اور وہ دونوں آئندہ کسی تیسرے کو وکٹیں اکھاڑنے کا موقع اور اختیار نہیں دینگے !اور اگر ہم ایک منٹ کیلئے یہ فرض بھی کرلیں کہ وہ اپنے حریف کیلئے اصولی موقف اپنانے پر تیار ہوجاتا ہے اور نتائج کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اُسکے حریف کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جائے جو اُس کے ساتھ کیا گیا تھا تو کیا اِس کے نتیجے میں وہ دوبارہ پس دیوارزنداں نہیں چلا جائیگا؟جب مخالف فریق کی جانب سے ایساکوئی مطالبہ ہی نہیں تو فقط ایک فریق کے یکطرفہ مطالبات کا نتیجہ سوائے اُس کی اپنی تباہی کے اور کیا نکلے گا ؟ مزید فرض کریں کہ ملک کی خاطر اگر وہ یہ بھگتنے کو تیار بھی ہوجائے تو کیا اِس ساری کارروائی کا منطقی انجام اُس سے مختلف ہوگا جو ماضی میں ہوا؟اہلِ دانش سے بہتر اِس سوال کا جواب کوئی نہیں جانتا۔انگریزی میں اِس کیلئے Appeasementکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، یہ وہی کام تھا جو برطانوی وزیر اعظم چیمبرلین نے 1930 میں کیا تھا ۔باقی تاریخ ہے ۔
اصل میں اہلِ دانش مشورہ تو اصولی دے رہے ہیں لیکن وہ یہ مشورہ غلط بندے کودے رہے ہیں، اُسکے پاس وہ سب کچھ کرنے کا اختیار ہی نہیں جسکا اسے مشورہ دیا جا رہا ہے ۔ اسی لیے اِس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ اِن تمام مشوروں پر عمل کرنے کے بعد ملک کی سمت درست ہوجائے گی کیونکہ انتقامستان میں کوئی نیلسن منڈیلا نہیں ،البتہ یہاں ڈی کلارک ضرور ہے ، اہل دانش نے مشورہ دینا ہے تو ڈی کلارک کو دیں، تاریخ میں امر ہونے کا موقع کلارک کے پاس ہے !

اپنا تبصرہ بھیجیں