عطا الحق قاسمی

یہ پر اسراریت کیا ہے؟

سچی بات یہ ہے کہ میرے اندر تشکیک کا مادہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے مجھے پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ اگر ساری دنیا ایک بات کو مانتی ہے تو میں اس حوالے سے عقل کے گھوڑے کیوں دوڑانے لگتا ہوں حالانکہ کچھ فوق الفطرت قسم کے واقعات میری زندگی میں بھی آئے ہیں مگر میں ان میں بھی کوئی لاجک تلاش کرنے بیٹھ جاتا ہوں۔ گزشتہ روز میں معروف مزاح گو شاعر سید سلمان گیلانی کی خود نوشت ’’نقوش حضوری‘‘ کا مطالعہ کر رہا تھا کہ میں کئی مقامات پر چونکا اب راوی ثقہ ہے اور یوں اس میں بدگمانی کی گنجائش نہیں کہ یہ واقعات جو انہوں نے بیان کئے ہیں ان میں کوئی کمی بیشی کی گئی ہوگی !
اس سے پہلے میں پیر جی ،سید عطاء المہیمن بخاری کی بابت چند باتیں عرض کر لوں اور میں انہیں صرف پیر جی لکھوں گا کہ ان کے نام کے ہجے اتنے مشکل ہیں کہ ایک دفعہ لکھنے کیلئےمیں نے کئی بار اس کی مشق کی ہے۔ پیر جی امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری کے چار صاحبزادوں میں سے آخری ہیں جو ابھی تک حیات ہیں اور سلمان گیلانی کے بقول وہ بہت زیادہ نحیف و نزار اوربیمار ولاچار ہو چکے ہیں ۔سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ سے ہماری خاندانی رفاقت ہے امرتسر میں شاہ صاحب کا گھر ہمارے گھر کے بالکل سامنے تھا چنانچہ ہم دونوں کے اہلخانہ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے میں بالکل بچہ تھا اور میں بھی کبھی اپنی بہن کو گود میں اور کبھی چھوٹے قدم اٹھاتا ان کے گھر پہنچ جاتا تھا بلکہ میری یادداشت میں ایک ہلکا سا خاکہ ہے کہ شاہ صاحب صرف دھوتی باندھے چارپائی پر بیٹھے ہیں انہوں نے مجھے اپنے پیٹ پر بٹھایا ہوا ہے اور مجھے اچھالتے ہوئے ہنس رہے ہیں ،ہمارے لئے یہ افتخار کی بات ہے کہ شاہ جی میرے دادا مفتی غلام مصطفیٰ قاسمی ؒ کے شاگرد خاص تھے۔ شاہ صاحب سے بڑا خطیب آج تک برصغیر میں پیدا نہیں ہوا وہ سامعین کو مسحور کر دیتے تھے اس دوران بہت بڑے بڑے لوگ صرف ان کی تقریر سننےکیلئےگھنٹوں کھڑے ر ہتے ۔شاہ جی فارسی کے شاعر بھی تھے اور اس دور کے نامی گرامی شعرا ان کی صحبت میں وقت گزارتے اور شعرو ادب پر گفتگو ہوتی، ایک دفعہ ساحر لدھیانوی نے اپنی ایک نظم شاہ صاحب کو سنائی جس کا ایک شعرتھا
ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
شاہ صاحب نےاسی وقت فی البدیہہ ایک شعر کہا اور ساحر سے کہا اپنی نظم میں شامل کر لو ،شعر تھا ۔
چمن کو اس لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
شاہ جی کی ساری عمر انگریز راج کے خلاف جدوجہد میں گزری چنانچہ عمر کا ایک طویل حصہ جیل میں گزارا،ن کا ایک جملہ ہے کہ ’’میری عمر ریل میں یا جیل میں گزری ہے ۔‘‘
تو سلمان گیلانی نے اس عظیم شخصیت کے فرزند پیر جی کے حوالے سے جو داستان سنائی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ان کے چیچہ وطنی کے تین احباب نے ان سے کہا کہ چلیں مل کر عمرہ کرتے ہیں مگر پاسپورٹ کے علاوہ تینوں کے پاس متاع دنیا میں سے کوئی چیز ان کے پاس نہیں تھی پیر جی کو سید کفیل شاہ نے کراچی تک کے ٹکٹ کے پیسے دیئے باقی تین بھی کسی نہ کسی طرح کراچی پہنچ گئے اور یہ چاروں کسی غیبی امداد کا انتظار کرنے لگے، ایک دن پیر جی مسجد کے صحن میں کھڑے تھے کہ ایک ناواقف شخص آیا اور پوچھا آپ امیر شریعت کے بیٹے ہو کیا؟ انہوں نے کہا ’’جی ہاں‘‘ اس نے کہا حجاز مقدس جانا چاہتے ہو تو پاسپورٹ دو، پیر جی نے کہا تین دیوانے اور بھی ہیں اس اجنبی نے کہا ان کے بھی لے آئو چنانچہ پیر جی نے چاروں پاسپورٹ اس کے حوالے کر دیئے وہ بندہ گیا اور چاروں کے سعودی ویزا پاسپورٹ اور ٹکٹ لیکر ان کے پاس آیا اور کہا بس میرے لئے دعا کر دیجئے گا ،آخر دم تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ بندہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا۔ اب یہ کیا ہے میری سمجھ سے باہر ہے ۔
صرف یہی نہیں بلکہ پیر جی کے تینوں ساتھی حج اور عمرہ کرکے واپس پاکستان چلے آئے مگر پیر جی بے سرو سامان چودہ سال وہیں رہے۔ پاسپورٹ کی مدت بھی ختم ہو گئی بلکہ ایک مرتبہ گم بھی ہو گیا اور موصوف بغیر پاسپورٹ بغیر ویزا حج اور عمرے کرتے رہے، مکہ مکرمہ میں حرم کے باہر آکر کسی دکان کے تھڑے پر سو جاتے اور آب زم زم یا کوئی شخص کچھ کھانے کو دے جاتا تو اس پر گزارا کرتے ،کچھ عرصے کے بعد محنت مزدوری کرنے لگے۔ مزدوری کی، لوگوں کا سامان اٹھایا ,1990ء میں جب ان کی والدہ ماجدہ بستر مرگ پر تھیں تو پاکستانی سفارتخانے سے دوبارہ اپنا پاسپورٹ بنوایا اور واپس ماں کے پاس ملتان پہنچ گئے۔ مکہ میں قیام کے دوران وہ اصحاب ِصفہ کے چبوترے پر بیٹھے تھے کہ دیکھا آسمان سے کچھ پرندے اتر رہے ہیں اور زمین تک پہنچنے سے پہلے غائب ہو جاتے ہیں اس کے ساتھ ہی انہیں آواز آئی ’’پیر جی آپ جتنا عرصہ یہاں رہنا چاہتے ہیں رہیں آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا اور بقول سلمان گیلانی پیرجی نے پوچھنے والے کو بتایا کہ چودہ برس کے عرصے میں کسی نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا وہ آزادانہ تفتیشی مراکز کے سامنے گزرتے وہاں پکڑ دھکڑ ہو رہی ہوتی مگر کسی نے ان کی شناخت نہ پوچھی۔
اب آپ بتائیں میں اپنی تشکیک کو کہاں لے جائوں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں