میرے سامنے ماضی اور حال کی تصویریں ہیں۔ مجھے ماضی میں پاکستان چمکتا ہوا نظر آیا۔ ایسا ملک جس میں جینے کی لگن تھی، جذبہ بول رہا تھا۔ ہم شاندار تھے، پی آئی اے شاندار تھی، ہم نے کئی ملکوں کو جہاز اڑانے سکھائے۔ دنیا کی بڑی ائیر لائنز ہمارے لوگوں نے شروع کیں، امریکہ اور برطانیہ کے حکمراں پی آئی اے کے ذریعے سفر کرنا فخر سمجھتے تھے۔پاکستان، چین کی پہلی کھڑکی تھا جس کے ذریعے چین کے لوگوں نے دنیا دیکھنا شروع کی۔ پی آئی اے پہلی انٹر نیشنل ائیر لائن تھی جس نے چین میں لینڈنگ کی، اس پر پورے چین میں جشن منایا گیا۔ ایوبی دور میں چین کو تین جہاز دئیے گئے، ان میں سے ایک ماؤزے تنگ استعمال کرتے تھے، اس جہاز پر آج بھی Courtesy by Pakistan لکھا ہوا ہے۔
پاکستان، چین سے تجارت شروع کرنے والا پہلا ملک تھا، ہم چین کے تیار کردہ ریزر، سوئیاں اور دیگر اشیاء طویل عرصے تک استعمال کرتے رہے۔ پاکستان نے چینی مسلمانوں کو حج و عمرے کی سہولت دے رکھی تھی، چینی مسلمان بسوں کے ذریعے آتے اور پھر پاکستان انہیں حجاز مقدس پہنچانے کا بندوست کرتا۔ کسی زمانے میں چینیوں کی بڑی خواہش پاکستان کا ویزہ ہوتا تھا مگر آج چائینہ ہم سے کہیں آگے جا چکا ہے۔ ہم نے کبھی چین کی ترقی اور اپنی تنزلی کا جائزہ ہی نہیں لیا۔ چین کہاں ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پورے یورپ میں دس لاکھ آبادی کے حامل 39 شہر ہیں جبکہ چین نے پچھلے تیس برسوں میں 160 ایسے شہر بسائے ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے۔ دنیا کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں فیکٹریاں لگانے پر مجبور ہیں۔ چین کی ترقی کے چار اصول ہیں۔ مخلص لیڈر شپ، انتھک محنت،خودپر انحصار اور خودداری۔ چین کبھی کشکول لے کر نہیں گیا۔ ہمارے وزیراعظم دنیا کو کیا کہتے پھرتے ہیں، یہ بات ڈھکی چھپی نہیں۔ کوریا، سنگاپور، ملائیشیا ہمارے پانچ سالہ منصوبے کی نقل سےخوشحالی پا گئے۔
ہم نے جاپان اور جرمنی کو قرضہ دیا، ہم بڑے زبر دست تھے، اندازہ لگائیے کہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس میاں عبد الرشید نے ملازمت کے آخری دن قلم سے سیاہی خالی کرتے ہوئے کہا’’میں اسے گھر نہیں لے جا سکتا، یہ میرے وطن کی امانت ہے‘‘۔ ہمارے پاس ہر شعبے میں دیانتدار لوگ تھے، طاقتور عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ خدا سے ڈرتے تھے، بھلائی کرتے تھے۔ ماضی میں تو ریلوے بھی نفع بخش تھا۔ ہمارے نہری نظام کی لوگ مثالیں دیتے تھے، پتہ نہیں پھر کیا ہوا، ہمارے قدم رک گئے، آسیب سایہ فگن ہو گیا۔ پہلے ملک دو ٹکڑے ہوا اور پھر ہم کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے۔ پہلےہمارے رہنما مخلص تھے، کرپٹ نہیں تھے مگر آج کی تصویر دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔
آج چین، جاپان اور جرمنی کہیں آگے ہیں، کوریا، ملائیشیا اور سنگاپور بھی آگے ہیں۔ نوے کی دہائی تک بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان ہم سے پیچھے تھے، آج وہ بھی ہم سے آگے نکل گئے۔ انڈیا خلائی مشن پر 20 ارب ڈالر لگا رہا ہے، 25 ملکوں میں انڈین کرنسی قابلِ قبول ہے۔ انڈیا دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ بھارت، گجرات سے 15کلومیٹر دور ایک نیا شہر گجرات انٹرنیشنل فنانس ٹیک سٹی(GIFT) بنانے جا رہا ہے، یہ چھ سو ارب ڈالر کا منصوبہ ہے، یہاں دنیا کی تمام بڑی یونیورسٹیاں کیمپس کھول رہی ہیں۔ اگلے پانچ سال میں انڈیا 4کروڑ اسٹوڈنٹس انٹرنیشنل یونیورسٹیوں کو دے گا۔ انڈیا کے عام آدمی کے اثاثوں میں تین گنا اضافہ ہو جائے گا اور ہماری حالت یہ ہے کہ پاکستان میں سفید پوش طبقہ مکمل طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہم بطور ملک زندہ رہنے کے لئے کبھی بجلی مہنگی کرتے ہیں کبھی پیٹرول کے ریٹ بڑھاتے ہیں، آئی ایم ایف سے قرضہ منظور ہونے پر پوری حکومت شکریے کا مجسمہ بن جاتی ہے۔
ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے، گزشتہ چالیس برسوں میں جو رہنما ملے، وہ مخلص تھے اور نہ ہی دیانتدار ۔ وہ ذاتی مفاد میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ لوگوں کی بھلائی اور قومی مفاد بھول گئے۔ ہمارے ان لیڈروں نے پورے معاشرے کو کرپٹ کر دیا ہے، جہاں لیڈر دولت کے پجاری ہوں وہاں ہریالی نہیں ہوتی، وہاں زمین بانجھ ہو جاتی ہے اور آج ہماری یہی حالت ہے۔احمد فراز کے اشعار یاد آرہے ہیں کہ
کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا نہیں معلوم
ہاتھ اٹھا لئے سب نے اور دعا نہیں معلوم
موسموں کے چہروں سے زردیاں نہیں جاتیں
پھول کیوں نہیں لگتےخوش نما نہیں معلوم
رہبروں کے تیور بھی رہزنوں سے لگتے ہیں
کب کہاں پہ لٹ جائے قافلہ نہیں معلوم
سرو تو گئی رت میں قامتیں گنوا بیٹھے
قمریاں ہوئیں کیسے بے صدا نہیں معلوم
منظروں کی تبدیلی بس نظر میں رہتی ہے
ہم بھی ہوتے جاتے ہیں کیا سے کیا نہیں معلوم
ہم فراز شعروں سے دل کے زخم بھرتے ہیں
کیا کریں مسیحا کو جب دوا نہیں معلوم
