میں نے ایک دفعہ کہیں دوستوں کی محفل میں اپنے اس ارادے کا اظہار کیا کہ میں پیرہونے کا اعلان کرنے والا ہوں، دوستوں نے کہا بسم اللہ دیر کس بات کی،ماشااللہ آپ کا خاندان آٹھ سو سال سے رشدوہدایت کا منبع رہا ہے اور ان کے مریدین پورے ہندوستان اور پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر مجھے خوشی اور فخر تو محسوس ہوا مگر اس کے ساتھ شرمندگی کی ایک لہر بھی میرے چہرےپر نمایاں ہوئی ۔سو میں نے سوچا جس بات کا میرے دوستوں کو بعد میں پتہ چلنا ہے وہ میں انہیں پہلے ہی کیوں نہ بتا دوں۔چنانچہ میں نے دل کڑاکرکے کہا ’’میں پیر نہیں ڈبہ پیر بننا چاہتا ہوں‘ میری تنخواہ سے تو بجلی کا بل بھی ادا نہیں ہوسکتا چنانچہ میٹر ریڈر کی مہربانی ہے اب تک کام چل رہا ہے ‘‘میرے دوست بھی میرے جیسے ہی ہیں انہوں نے لبیک کہا اور اس حوالے سے ہر قسم کے تعاون کا یقین بھی دلایا۔
اس کے بعد میں نے ڈبہ پیر بننے کی تیاریاں شروع کر دیں، ایک دوست کے فارم ہائوس کے باہر جلی حروف میں فخر الاولیا وفقہا،سرتاج العلماء و پیر طریقت وغیرہ کی تختی لگوا دی اور سبز جھنڈے بھی لہرا دیئے ۔فارم ہائوس میں ہر وقت دس بارہ ملنگ مستی کے عالم میں رقص کرتے نظر آتے اور دو تین بھنگ گھوٹتےدکھائی دیتے اس کےساتھ درمیان درمیان میں وہ حق ھو کے نعرہ ہائے مستانہ بلند کرتے ،اس انتظام میں میرے دوستوں نے مالی مدد کی بلکہ ایک دوست نے تو لنگرخانے کا بندوبست بھی کر دیا جسے فقیری لنگر کا نام دیا گیا۔ تاہم میرے دوستوں نے اس حوالے سے جو اہم خدمت سرانجام دی وہ یہ تھی کہ کچھ جعلی لنگڑے لوگوں کو وہ میرےپاس لے کر آتے یا کسی ایسے شخص کو جس کے بارے میں مریدین کو بتایا جاتا کہ اسے جن چمٹا ہوا ہے ان سب کو سمجھایا گیاہوتا کہ جونہی پیر صاحب دم کریں تم نے ایک دم اپنے پائوں پر صرف کھڑے ہی نہیں ہونا بلکہ تھوڑا بہت بھاگ کر بھی دکھانا ہے۔ الحمدللہ کچھ ہی دنوں میں میری روحانیت کا شہرہ چار دانگ عالم میں سنائی دینے لگا، اس کے نتیجے میں چوٹی کے ڈاکٹر میرے پاس آئے اور عرض کی کہ ان کے کچھ مریض ایک عرصےسے فالج کی وجہ سےہل جل نہیں سکتے کچھ کئی مہینوں سے کوما کی حالت میں ہیں براہ کرم ایک دن ہسپتال میں تشریف لائیں اور ان لاعلاج مریضوں پر بھی دست شفقت رکھیں مگر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ ڈاکٹر روحانیت کے قائل نہیں ہیں مجھے ایکسپوزکرنا چاہتے ہیںسو میں نے انہیں بھگا دیا بلکہ اپنے پالتو دو چار غنڈے بھی ان کے پیچھے لگا دیئے جنہوں نے واپسی پر کار میں بیٹھنےسے پہلے ان پر اپنی کار چڑھا دی ۔الحمدللہ اسے بھی میری کرامت پر معمول کیا گیا کہ کچھ لادین گستاخوں کو اللہ نے موقع پر ہی کیفر کردارپر پہنچا دیا۔
میرے دوستوں نے اس حوالے سے مجھے کچھ اور بھی تجاویز دیں جو بہت عمدہ تھیں سو میں نے کچھ عمامے والے باریش لوگ ہائر کئے ،وہ مریدین کا صرف ہاتھ پکڑتے اور روحانیت کی بجلی ان کے اندر اس طرح سرایت کرجاتی کہ وہ عالم خود فراموشی میں چلے جاتے اور روحانیت کے کرنٹ کی وجہ سے لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے بیہوش ہو کر گر جاتے مگر یہ بہت مشکل کام تھا کہ روحانیت کے دلدادہ اتنے ڈھیر سارے لوگوں کی مزدوری بہت زیادہ تھی اور آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی سو میں نے یہ منصوبہ درمیان ہی میں ترک کر دیا اور اس کی جگہ میں نے اپنا رقص وموسیقی کا دیرینہ شوق پورا کرنے کیلئے مخصوص وضع قطع میں ملبوس درویشوں کا ایک گروپ تیار کیا وہ خود پر جذب ومستی کی کیفیت طاری کرتے اور اس کے بعد ان کا درویشی رقص دیکھنے کے قابل ہوتا ،ایک اس طرح کا درویش رضاکارانہ طور پر اس پر طائفےمیں شامل ہوگیا وہ اپنی داڑھی اور چوغے کے باوجود نازوادا اور دلفریب نخرےبھی دکھاتا اس کا رقص دیدنی تھا بھائو دکھانا، نرت، تال کے ساتھ اس کے اسٹپ ایک پروفیشنل ’’رقاصہ’’ کا منظر پیش کرتے تھے۔ اس کےساتھ اس کے مریدین بھی اپنے مرشد کی پیروی میں دیوانہ وار رقص کرتے کرتے گرجاتے تو یہ ان پر گر جاتا!
یہ سارے ڈرامے میں نے اپنے دوستوں کی مدد سے رچائے،نذرنیاز دن بدن بڑھتی گئی مگر دولت سے زیادہ لوگوں کا مجھے سجدہ کرنا ، میرے پائوں کو ہاتھ لگانا، میرے ہاتھ چومنا اور اس طرح کے دوسرے مناظر کی لذت ہی کچھ اور تھی مگر اس دوران میرے جدامجد خوا ب میں آئے اور بہت لعنت ملامت کی ،انہوں نے کہا کہ بجائے ہمارے پیغام کو آگے بڑھانے کے تم نے شعبدہ بازیاں شروع کر دیں شرم آنی چاہئے تمہیں چنانچہ میں نے یہ ڈرامے ختم کرائے مگر ان بیوقوف مریدوں کا کیا کروں جو میری کرامتوں کے قائل ہو چکے ہیں اور میرے آستانے پر باقاعدگی سے حاضری دیتے ہیں مجھے آپ کے مشورے کی سخت ضرورت ہے۔
