نعیم مسعود

بھٹو نے کیا کیا ، خان کیا سمجھا؟

کیا پاکستان کی اعلیٰ قیادت اپنے وزیروں اور مشیروں کی نہیں سنتی؟ اور سوال یہ بھی کہ کیا اعلیٰ قیادت کو وزیر اور مشیر مروا دیتے ہیں ؟ ممکن ہے آپ کہیں دونوں ہی صورتیں وجود رکھتی ہیں۔
دماغ گھوم جاتا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کے’’دو معاملات‘‘ پر غور کیا جائے۔ پاکستان کو حقیقتاً نیا پاکستان بنانے والے اور بلاول ہاؤسز کے بجائے لوگوں کے دلوں میں بسنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو قطعاً ضرورت نہیں تھی کہ 1977 کے الیکشن میں دھاندلی ہو۔ بھٹو کے ہارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مان بھی لیا جائے کہ ایک دو سیٹیں پیپلزپارٹی نہ لے پاتی تو اس سے بھی کیا فرق پڑنا تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے چند بابو سیاستدانوں نے جو کبھی بیوروکریٹ تھے یا ٹیکنوکریٹ ، یعنی عوامی نہیں تھے انہوں نے دھاندلی کو کلاکاری سمجھا، پھر جان محمد عباسی اتنا بڑا لیڈر نہیں تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کی جانب جانے والے راستے کی دیوار بنتا۔ کیا کیا نہ ہوا ؟ دھاندلی کا الزام لگا، اقتدار آکر چلا گیا، جیل ، کال کوٹھڑی اور پھانسی کے دریچے کھلے۔ اعتزاز احسن جیسوں نے چھوڑنے میں ایک گھڑی بھی نہ لگائی، اور تو اور ، غلام مصطفیٰ جتوئی ، غلام مصطفیٰ کھر اور ممتاز بھٹو جیسے اقتدار تک ساتھ رہے، یہ الگ کہانی ہے کہ خواجہ احمد طارق رحیم اور اعتزاز احسن جیسے بیسیوں پھر بےنظیر کے ٹرک پر تھے۔ چونکہ آج موضوع بےنظیر بھٹو نہیں ، سپردِ قلم صرف بھٹو صاحب اور عمران خان کو کرنا ہے ! سو، یہاں یہ بھی مطلب نہیں کہ بھٹو صاحب یا عمران خان کا کوئی کارکردگی کا موازنہ مقصود ہے ۔قاری کی توجہ اس طرف مبذول کرانی ہے کہ غلط کام جس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی وہ کام جب کسی لیڈر سے ہو جائے تو سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ اس کی سادہ سی مثال آپ کے اپنے گھر یا کسی گرد و نواح کی بھی ہو سکتی ہے کہ گھرانے کے سربراہ کی غلطی پورا گھر تباہ کر دیتی ہے، یہ ضروری نہیںکہ جوان اولاد ہی بس غلطی کا مرتکب ہو سکتی ہے۔ سیاست میں مکالمہ کیو ں ضروری ہے؟ سیاست میں مشاورت کیوں ضروری ہے؟ سیاست میں تاریخ کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟ سیاست ہو ہی نہیں سکتی جب تک کسی کو اپنے غصے، اپنی نیند اور اپنی بھوک پر کنٹرول نہ ہو۔ سیاست ہو ہی نہیں سکتی جب تک جمہوریت کی روح سے آگاہی نہ ہو۔ دو باتیں اہم ہیں ، پہلی بات یہ کہ جمہوریت ایک ازخود کرشمہ ہے جس کا آٹومیٹک ہونا اس پر منحصر ہے کہ اس کے رگ و پے میں انسانی حقوق کی پروموشن کا لہو دوڑتا ہے۔ اس کی معراج یہ کہ وہ انسانی حقوق کا لہو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو جمہوری سیال مادوں کا وہ لہو ہی کیا ہے۔ جہاں تک مکالمہ کی بات ہے وہ یہ کہ جب تک ملاقات نگار یا ڈائیلاگ کا حامل آئین فہمی، تاریخ سے آشنائی اور کرنٹ افیئرز کی فراست نہیں رکھتا اس کا مکالمہ کرنا جذباتی میلہ یا فلمی شو تو ہو سکتا ہے سیاسی مکالمہ نہیں۔
بھٹو صاحب کے بعد ، عمران خان کے قول و فعل کے تضاداور کمزوری پر ایک لمحہ سوچنے کی ضرورت ہے: کیا عمران اس وقت مقبولیت میں سرفہرست نہیں؟ کیا عمران خان عہد حاضر کا بڑا سیاسی کمال اور سیاسی جمال نہیں؟ ان دونوں سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ! اگر سیاسی کمال و جمال بھی ہے اور سیاست میں مقبولیت کا کوہ ہمالیہ بھی ، تو پھر اسے اقتدار میں رہ کر یا اقتدار چِھن جانے کے بعد جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔ قبل از اقتدار، بعداز اقتدار یا عہد حکومت میں عمران خان کے یو ٹرنز اور جھوٹوں کی تعداد بیسیوں نہیں سینکڑوں ہے۔ اس بات کو تاریخ فراموش کر سکتی ہے نہ کوئی ذی شعور کہ جب رہبر جھوٹ بولے تو جھوٹ کا بازار کھل جاتا ہے۔ پھر اسٹیبلشمنٹ سے ججوں تک کو اور بیوروکریسی سے ٹیکنوکریسی تک کو مسلسل جھوٹ بولنا پڑتا ہے ۔ ایسے میں کبھی مقننہ اور عدلیہ میں سرد جنگ تو کبھی انتظامیہ اور عوام میں محاذ گرم رہتے ہیں ۔ یہ وہ صوت حال جس میں کوئی میثاق جمہوریت کام کرتا ہے نہ میثاق معیشت ۔ جھوٹ اور فریب کی رکھی ہوئی خشتِ اول پر فلک بوس تعمیر سازی ہو سکتی ہے نہ جمہوریت ثمر بار۔ کیا گلوبل ویلیج مسلسل ہماری عدلیہ ، ہماری یونیورسٹیوں اور کمزوریوں کی رینکنگ نہیں بتا رہا ؟ جس ملک کی عدلیہ کا ٹاکرا پارلیمنٹ سے رہے ، جسٹس منیر، جسٹس مولوی مشتاق، جسٹس نسیم حسن شاہ ، جسٹس افتخار محمد اور جسٹس ثاقب نثار جیسے مہان لوگوں کو بعد ازاں تسلیاں اور وضاحتیں دینا پڑیں اب اس پر اور کیا کہنا؟ جہاں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی عجیب تاریخ ہو وہاں بچے تاریخ پڑھ کر کریں بھی کیا۔ آج کی ذہنی معذوریاں اور جسمانی مجبوریاں چھوڑیں بچوں کو ذرا غلام محمد گورنر جنرل کی اسٹوری تو پڑھائیں؟ پھر ان سے پوچھئے گا کہ ہم نے سات دہائیوں سے زائد وقت میں سیاسی سڑک پر کیا کھویا اور کیا پایا ، منزلیں کتنی ملیں۔
آج بھی ہمارے جمہوری رہنما سمجھتے ہیں بیرسٹر علی ظفر یا عرفان صدیقی کی ٹیکنوکریسی ملک چلاتی ہے یا چلا سکتی ہے، نہیں چلا سکتی ۔ لیڈر شپ وہ جو زرخیز لیڈر شپ کو جنم دے، خورشید شاہ، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق ، سعید غنی، چوہدری جعفر اقبال جیسے لوگوں کو مزید آگے کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا اس کریڈیبلٹی پر ہمیں رونا نہیں آتا کہ ہمارا سیاستدان اور حکمران منصفانہ الیکشن ہی نہیں کرا سکتا ۔ پاکستان کے علاوہ کہیں نگران حکومت کا تصور نہیں۔ گویا ہمارے جرنیلوں اور ججوں نے ایسا مائنڈ سیٹ بنا دیا کہ سیاستدان درست ہی نہیں، اور یہ واردات ہم نے قبول بھی کرلی۔
چلئے ، ہم مان لیتے ہیں کہ دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت مگر یہ بھی تو سوچنا ہوگا کہ یوسف کبھی تو سمجھے۔ پھر ، یوسفی نہیں تو زلیخی پیدا کر۔ کوئی تو ہو جو ملک و ملت کی وحشتوں کا ساتھی ہو اور وحشت کو بہشت میں بدلنے کی کوشش کرے ۔ اجی، کوشش تو کرے ! ایک دفعہ پھر نیا پاکستان کیا بنتا خان کے جھوٹوں نے مقتدر اور اسٹیٹس کو توانا ہی نہیں دیا واپس شرفاء کے حوالے کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے 90 فیصد قصور سے لیڈر کی 10 فیصد غلطیاں سیاسی و جغرافیائی نقشے بدل دیتی ہیں!

اپنا تبصرہ بھیجیں