مظہر برلاس

ہم کیا کر رہے ہیں؟

میری اس سے دوستی نہیں تھی اور شاید وہ مجھ سے کبھی ملا بھی نہ ہو مگر اس کی موت نے مجھے لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ظلم پر خاموش رہا جا سکے، حق پرستی کا حق تو یہی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، ہماری منزل کون سی ہے، ہمیں اس راستے پر کس نے ڈال دیا ہے، ہر طرف لا قانونیت کا بسیرا ہے، انسانی حقوق تڑپ رہے ہیں۔ شاید ہمارے بڑے عہدیداروں کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ ان کی چھتری تلے پولیس معاشرے میں کس طرح انسانی حقوق کی پامالی کر رہے ہے۔ ظلم و ستم کا مظاہرہ کرنے والی پولیس یہ کہتی ہے، “اوپر سے حکم ہے”۔ بس اس ایک جملے کے سبب پولیس نے پچھلے چار سال کے پیسے پورے کر لیئے ہیں۔ لوگوں کے گھر توڑنا، عورتوں اور بچوں کو ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے۔ پتہ نہیں یہ کس کی خدمت ہو رہی ہے۔ میں نے ظلم و ستم پر حالات کو اس طرح ماتم کرتے ہوئے پہلے کبھی نہیں دیکھا نہ ہی خود کشیوں کا ایسا موسم کبھی آیا تھا۔ 16 مہینوں کا ثمر مہنگائی اور حالات کی سنگینی کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں نے کالم کی ابتداء میں جس کی موت کا تذکرہ کیا ہے، اس کا نام میاں شوکت علی لالیکا ہے۔ بہاولنگر کا یہ سیاستدان قریباً 35 سال عوامی سیاست کرنے کے بعد ایک حادثے کی نذد کر دیا گیا۔ آج وہ چک امیر لالیکا میں آسودہ خاک ہے مگر اس کی موت ہمارے پورے سماج کے لئے کئی سوالات چھوڑ گئی ہے۔ بہاولنگر کا نام آتے ہی مجھے میرے عظیم دوست علی اکبر وینس یاد آ جاتے ہیں۔ میرے اس مرحوم عظیم دوست کے بیٹے عبداللہ وینس کا گھر اور ڈیرہ توڑ پھوڑ کی نذر ہو چکا ہے چونکہ میاں شوکت علی لالیکا کا تعلق بہاولنگر سے تھا، اس لئے مجھے مرحوم علی اکبر وینس کی یاد آ گئی۔ سماج کو خوف اور کرب میں مبتلا کر دینے والے سوالات عجیب و غریب ہیں۔ مثلاً شوکت علی لالیکا سابق صوبائی وزیر تھے، ان کا تعلق ایک زیر عتاب پارٹی سے تھا، وہ پچھلے چار مہینوں سے گھر سے دور کبھی کہیں اور کبھی کہیں رہ رہے تھے پھر ایک شام کسی نے اطلاع دی کہ جہاں آج آپ مقیم ہیں وہاں پولیس ریڈ ہو گی، مجبوراً انہیں وہ جگہ چھوڑنا پڑی۔ وہ چھپتے چھپاتے لاہور سے نکلے، گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا اور گاڑی میں میاں شوکت علی لالیکا اپنی اہلیہ کے ساتھ عازم سفر تھے، گاڑی حادثے کا شکار ہوئی، ان کی اہلیہ موت کی وادی میں اتر گئیں اور پھر اگلے روز میاں شوکت علی لالیکا موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان پر پارٹی چھوڑنے کا پریشر تھا، وہ دنیا چھوڑ گئے۔ ان کے گاؤں کی کچی مٹی سے مہکتی فضاؤں نے چار ماہ بعد ان کا چہرہ دیکھا۔ جب وہ گاؤں سے رخصت ہوئے تو گاڑی میں خود سوار ہوئے تھے، چار ماہ بعد گاڑی سے ان کی لاش اتاری جا رہی تھی، یہی ہمارے سماج کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ان کی نماز جنازہ میں انسانوں کا سمندر شریک ہوا، پورے بہاولنگر کی سوگوار فضا پوچھ رہی تھی، پارٹی نہ چھوڑنے کی قیمت گھر اجاڑ دینا ہے؟ بقول اقبال گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں کہ شاہیں کے لئے ذلت ہے کار آشیاں بندی آج کل بھارت میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ 20 ترقی یافتہ ممالک نے بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کے تجارتی معاہدے کئے ہیں۔ انڈیا کے ساتھ تجارت کے لئے بھارت، یو اے ای، سعودی عربیہ اور یورپ کے درمیان بحری اور ریلوے کی راہداریوں کے علاوہ زیر سمندر ریل سمیت گیس اور تیل کے پائپ لائن کے معاہدے شامل ہیں۔ یو اے ای اور سعودی عرب، بھارت کو تجارت کے لئے راستہ دیں گے۔ امریکہ، بھارت میں دنیا کی دوسری بڑی ایمبیسی بنائے گا۔ برطانیہ کا انڈیا کے ساتھ فری ٹریڈ کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ سعودی عرب دو لاکھ بھارتیوں کو نوکریاں دے گا۔ ترکیہ جدید ترین ڈرون فراہم کرے گا۔ انڈیا نے امیر ملکوں کے ساتھ مل کر ایک بڑا اکنامک کوریڈور بنایا ہے۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے مگر ان ترقی یافتہ ملکوں سے کسی نے پوچھا کہ کشمیریوں پر ظلم و ستم کرنے والے ملک پر اتنی مہربانیاں کیوں؟ گوردواروں، گرجا گھروں اور مسجدوں کی بے حرمتی کرنے والوں پر اتنی مہربانیاں کیوں؟ شودروں کو جانور سمجھنے والوں پر اتنی نوازشات کیوں؟ اس کیوں کے ساتھ ایک سوال حکومت پاکستان سے بھی ہے کہ آخر انہوں نے دنیا کو بھارتی ظلم و ستم سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟ امریکہ میں فرینڈز آف کشمیر کی سربراہ غزالہ حبیب خان اس ناانصافی پر مظاہرہ کر سکتی ہیں تو حکومت پاکستان دو لفظ کیوں نہیں بول سکتی؟ اب ایک سوال پوری قوم سے ہے، ہمارا دشمن کیا کر رہا ہے اور ہم معاشرے میں کس طرح کا زہر گھول رہے ہیں۔ ہم اپنے لئے سرمایہ کاری اور ترقی کے دروازے خود بند کر رہے ہیں۔ ہم بڑے چوروں کو چھوڑ کر چھوٹے چوروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے سماج میں بے یقینی کی فضا کیوں ہے؟ اسلم گورداسپوری یاد آ گئے کہ زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں

اپنا تبصرہ بھیجیں