مغربی دنیا کے لبرل ازم کی آخری حد

غلاموں کاایک گروہ کئی سال سے ایک پنجرے میں قید ہے ،پنجرے کے مالکان اُن سے مشقت کرواتے ہیں ، انہیں بلاوجہ مارتے پیٹتے ہیں اور کبھی کبھار کسی غلام کو ذرا سی غفلت پر قتل بھی کردیتے ہیں۔ایک دن کچھ غلام فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں اِس خوف اور دہشت کی زندگی سےآزاد ہونےکیلئے بغاوت کردینی چاہیے۔ زیادہ تر غلام اِس تجویز کی تائید کرتے ہیں مگر چند جہاندیدہ غلام اپنے ساتھیوں کو اِس سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم اِس بغاوت میں کبھی کامیاب نہیں ہوپاؤ گے ،ہمارے مالکان بے حد طاقتور لوگ ہیں لہٰذا یہ دانشمندی نہیں کہ اُن سے بھِڑا جائے، عافیت اسی میں ہے کہ گاہے گاہے مالکان کے سامنے پُر امن انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے رہو ، اِس کا بہت اثر ہوگا ۔جہاندیدہ غلاموں کی دلیل تسلیم کرلی جاتی ہے۔اگلے روز غلام پُر امن انداز میں مطالبہ کرتے ہیں کہ اُن کے بچوں سے زیادہ مشقت نہ کروائی جائے ، انہیں وقت پر کھانا دیا جائے اور ہفتے میں ایک دن آرام کا مقرر کیاجائے ۔ مالکان اُن کی یہ مانگیں سُن کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ مسکراتے ہیں ،پھر اُن میں سے ایک شخص اپنی بندوق تان کر غلاموں پر اندھا دھُند گولیوں کی بوچھاڑ کردیتا ہے ،نتیجے میں چار بچے اور اٹھارہ جوان ہلاک ہوجاتے ہیں۔
یہ اُس ظلم کی تمثیل ہے جو گزشتہ 75 برس سے اسرائیل فلسطینیوں پر ڈھا رہا ہے ۔تاہم اگر آپ میں سے کسی کو یہ تمثیل مبالغہ آمیز لگے تواسے چاہیے کہ وہ اپنی پسند کی کوئی لغت نکالے اور اُس میں نسل کُشی،جنگی جرائم،حراستی مراکز،اجتماعی سزااورمرگ انبوہ جیسی تراکیب کے مطلب تلاش کرکے انہیں اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف موجودہ جنگی کارروائی پر منطبق کرکے دیکھے، معاملہ صاف ہوجائے گا ۔جو کچھ اِس وقت اسرائیلی فوج غزہ میں کر رہی ہے وہ ٹیکسٹ بُک جنگی جرائم سے کم کچھ نہیں ہے،آپ اِس معاملے کو سیدھا کر لیں ، اُلٹا کرلیں، حماس کی مذمت کرلیں یا فلسطینیوں کی حکمت عملی پر تنقید کر لیں، ہر لحاظ سے مجرم اسرائیل ہی ثابت ہوگا۔تادم تحریر اسرائیل اپنی نام نہاد ’دفاعی کارروائی ‘ میں ساڑھے سات سو فلسطینی بچوں کو شہید کر چکا ہے اور غزہ کو تقریباً کھنڈر بنا چکا ہے، اِس کے باوجود امریکہ ، یورپی یونین ،برطانیہ اور اُس کے ہمنوا بدمعاش مغربی ممالک کا اصرار ہے کہ اسرائیل مظلوم ہے اور فلسطینی دہشت گرد۔اسرائیل کی جارحیت نے اِس مرتبہ جس طرح مغرب کے لبرل ازم کو بے نقاب کیاہے وہ ناقابل یقین ہے۔اِن تمام مغربی ممالک کی تاریخ ، فلسفہ، تہذیب،انسان دوستی،مساوات،جمہوریت،بنیادی حقوق، قانون کی پاسداری اور نا انصافی سے متعلق بلند بانگ دعوے ، جن سے ہمارے لکھاری بہت متاثر تھے (ہیں) اپنی موت آپ مرگئے ہیں، آج مغربی حکمرانوں نے ثابت کردیا ہے کہ اُن کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہے جس کی وجہ سے انہیں اسرائیل کی مظلومیت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔دراصل اسرائیلی ریاست نے اپنے قیام سے اب تک جس طرح ہولوکاسٹ کی مارکیٹنگ کی ہے اُس نے مغربی دنیا کو بہت متاثر کیا ہے ، ستّر لاکھ یہودیوں کا قتل اسرائیل کے قیام کا سبب بنا اور آج یہ اسرائیل کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
اب حالات تبدیل ہورہے ہیں،اسرائیل کی مارکیٹنگ کایہ حربہ اب کام نہیں کر رہا ، یہی وجہ ہے کہ حماس کے حملو ں کے باوجود پوری دنیا میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں ۔مسلمان ممالک میں تو پہلے ہی فلسطینیوں کی حمایت موجود تھی مگر اِس مرتبہ مغربی ممالک کے عوام سب سے آگے ہیں، فرانس نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں پر پابندی لگا دی تھی مگر اِس کے باوجود وہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اور یہی حال یورپ کے دیگر ممالک اور امریکہ اور برطانیہ کا ہے۔کولمبیا نے اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کر دیا ہے جبکہ سپین کی ایک وزیر نے نتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم کامقدمہ چلانے کا مطالبہ کیاہے ۔ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک اسرائیل کیلئے میڈیا مینجمنٹ آسان ہوا کرتی تھی ، مگر ٹویٹر اور فیس بُک کی آمد کے بعد یہ ممکن نہیں رہا، لوگ اسرائیل کے حق میں یک طرفہ پروپیگنڈا سُن سُن کر عاجز آگئے تھے، سوشل میڈیا پرجب انہیں تصویر کا دوسر ارُخ دیکھنے کو ملا تو انہیں علم ہوا کہ اصل مجرم تو اسرائیل ہے،فلسطینیوں پر بمباری کی تصاویر جس انداز میں اِس مرتبہ سوشل میڈیا نے دکھائیں وہ آج سے دس بیس برس پہلے ممکن نہیں تھا۔
اب ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اپنے جنگی اقدامات سے فلسطینیوں کو کُچل کر رکھ دے گااور کیا حماس کا یہ حملہ فلسطینیوں کی’کاز‘کو نقصان پہنچانے کا سبب بنا؟ میری رائے میں اسرائیل وقت کو شکست دینے کی کوشش کر رہاہے اور یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔یہ محض جذباتی بات نہیں ہے۔اگر آپ اسرائیل کا نقشہ نکال کر دیکھیں تو پتا چلے گا کہ اسرائیلی ایک پٹی پر آباد ہیں،جو شمال سے جنوب تک یہ 263 میل لمبی ہے جبکہ چوڑائی میں یہ 71 میل ہے اور ایک جگہ تو محض 6 میل رہ جاتی ہے، باقی سارا اسرائیل صحرا ہے ، ارد گرد فلسطین کا مغربی کنارا، غزہ اور رملہ ہیں۔اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس پر باآسانی راکٹ داغے جا سکتے ہیں کیونکہ اِس کا جغرافیہ ہی ایسا ہے کہ ارد گردکی آبادی سے اِس کے شہروں پر راکٹ پھینکے جا سکتے ہیں اور حماس نے یہی کیا۔کیا اسرائیل کے شہری اِس ماحول میں رہنا چاہتے ہیں؟ سادہ جواب ہے کہ نہیں۔ سو،اسرائیل کے پاس دو آپشن ہیں، پہلا یہ کہ دو ریاستوں کے قیام پر آمادہ ہوجائے، اِس میں اسرائیل کا نقصان ہے کیونکہ جس لمحے فلسطین کو باقاعدہ ریاست تسلیم کر لیا گیا تو اسے مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان راستہ دینا ہوگا، ایک آزاد ریاست کے طور پر فلسطین کسی بھی دوسری ریاست سے دفاعی معاہدے کر سکے گا، یہ بات اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ ہوگی، اسی لیے اسرائیل نے معاہدہ کرنے کے باوجود اِس آپشن پر عمل نہیں کیا۔دوسرا آپشن ایک ہی ریاست میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو ضم کرنا ہے ، لمحہ موجود میں یہ بھی ممکن نہیں رہا کیونکہ اِس وقت فلسطینیوں کی آبادی اسرائیلیوں سے تجاوز کر چکی ہے، جونہی یہ ضم ہوئے، اسرائیل میں فلسطینیوں کی حکومت جمہوری اصول کے تحت قائم ہوجائے گی۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل آئے روز فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے بے دخل کرکے یہودیوں کو آباد کرتا ہےتاکہ آبادی کا یہ تناسب بہتر کیا جا سکےورنہ اسرائیل میں کوئی لُٹا پُٹا بے گھر یہودی نہیں ہے۔ مصر اور اردن بھی اسی وجہ سے اپنی سرحدیں فلسطینیوں کیلئے نہیں کھولتے کیونکہ ایک مرتبہ اگر فلسطینی اپنا علاقہ چھوڑ کر باہر چلے گئے تو آزاد فلسطین کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکےگا۔ ایسے میں اسرائیل کے پاس صرف ایک آپشن بچتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی پوری آبادی کواسی طرح ماردے جیسے دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے یہودیوں کومارا تھا۔ کیا اِس طریقے سے اسرائیل یہ جنگ جیت سکتاہے ؟ میرا جواب ناں میں ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں