دوربین اور خوردبین کی مدد سے نگران سیٹ اپ کیلئے جو جو لوگ چشم بینا نے ڈھونڈے ہیں ان میں سے کسی ایک پر بھی اعتراض نہیں۔ چُننے والوں پر تو خیر اعتراض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ویسے ہم ہوتے بھی کون ہیں جو اعتراض کر سکیں؟ ہمارا چناؤ تو ہمیشہ ٹکراؤ کی نذر ہو جاتا ہے۔ اب کئی دنوں سے یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ کسی حیلے بہانے سے جمہوریت کو اس پر سو فیصد راضی تو نہیں کر لیا جائے گا کہ وہ انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر لے!
ماضی میں جمہوریت کو صرف انجینئر سے خوف آتا تھا اب اندیشہ یہ بھی رہتا ہے کہ مکینیکل یا کیمیکل یا سِول انجینئرنگ والے جمہوریت کوانجینئرڈ کرتے کرتے آپس ہی میں دست و گریباں نہ ہو جائیں۔ کیونکہ وقت گزرنے کے سنگ سنگ جمہوریت کی ٹیکنالوجی پر انجینئرنگ والوں کی بڑھتی ہوئی ورائٹی اپنے اپنے انداز میں شب خون مارنے کیلئے بےچین رہتی ہے: ’’ تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا/ریت اس نگر کی ہےاور سن سنتالیس سے ہے/ دیکھ کر پرندوں کو باندھنا نشانوں کا ، ریت اس نگر کی ہےاور سن سنتالیس سے ہے‘‘
انسانی حقوق کی نگہبانی ہو گی تو قوم کو سکون ملے گا۔ سکون کیلئے معیشت کی بہتری ضروری ہے اور اس بہتری کیلئے سیاسی استحکام لازم و ملزوم ہے۔ انسانی حقوق، سیاسی استحکام اور جمہوریت ایک طرف چولی دامن کا ساتھ رکھتے ہیں تو دوسری وہ ٹرائیکا ہے جس کے زاویوں کے مابین پورا بیوروکریٹک و ٹیکنوکریٹک سسٹم اور عدلیہ و مقننہ سِمٹ آتے ہیں۔ لہٰذا جمہوری قوتوں اور آئین کو فراموش کرکے معاشی استحکام کی امید رکھنا بہرحال عاقبت نااندیشی ہوگی۔ کون سا انجینئرڈ یا آمرانہ نظام ہے جس کا ہم نے تجربہ نہیں دہرایا ؟ جس تجربہ کی اشد ضرورت ہے اور پہلے سے زیادہ ہے وہ جمہوریت کا تسلسل ہے۔ وہ تسلسل جو مداخلتوں اور منافقتوں سے پاک ہو۔ ماضی قریب میں تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی حکومتوں نے آئین اور قانون کی بالادستی کو اس انداز میں تسلیم نہیں کیا جو مطلوب تھا ، اور دونوں ہی اقتدارکی حرص و ہوس کے سامنے مغلوب تھے۔ ڈیجیٹل دنیا میں مردم شماریوں کو اختر شماریوں کے زمرے میں لینا ژرف نگاہی سے اجتناب ہے۔
مرکز کے ہاتھ سے نکلنے کی پاداش میں تحریک انصاف کا صوبوں کی حکومتوں کو توڑنا معیشت دشمنی تھی، پھر الیکشن کے مطالبہ میں قبلہ درست نہیں تھا۔ اب پی ڈی ایم اور ہم نوا پھر آرٹیکل 254 کا بہانا کریں تو ایک اور زیادتی ہوگی۔ بار ہا عرض کیا گیا کہ امریکہ و ملائشیا جیسے ممالک میں بھی آئین کئی بار جواب دینے کے بجائے سوال چھوڑتاہے، اور بعض اوقات شقیں آپس میں متصادم دکھائی دیتی ہیں، کہیں تو آئینی دفعات خاموش بھی رہتی ہیں۔ بات یہاں تک ہی نہیں بیشتر اوقات میں آرٹیکلز مقبول سیاست کے عین برعکس بھی ہوتے ہیں۔ اب یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں قیادت مکالمہ ، باریک بینی اور بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے ڈیڈ لاک سے نجات حاصل کرلیتی ہے، آئین کی تشریح کرنے والے ادارے یا کوئی اور یہاں اتنا وزن نہیں اٹھا سکتا جتنا سیاسی قیادت اور اہل جمہور اٹھا سکتے ہیں!
ایک آدھ ملک تو کیا سارے عالم کے ٹیکنوکریٹس کو اکٹھے کرکے یا دنیا بھر کے ریٹائرڈ ججز اور ریٹائرڈ جرنیلوں کوایک جگہ جمع کرلیں یا مشرق و مغرب کے تجزیہ کاروں کو بلا کر ایک ملک کی قیادت سونپ دیں وہ اس کی معیشت یا معاشرت کو تقویت نہیں بخش سکتے کیونکہ ہر ملک بلکہ خطہ کی اپنی تہذیب ، مخصوص ثقافت اور منفرد چیلنجز ہیں اور ان اسرار و رموز کو مقامی، صوبائی اور قومی قیادت ہی سمجھ سکتی ہے۔ شہریوں کو ڈیل کرنا ایک سائنس ہے جس سائنس کو میڈلز، ادھیڑ عمری، انگلش میڈیم یا امپورٹڈ مال سمجھ لے یہ ضروری نہیں۔ یہ بھی مناسب نہیں کہ مرکز میں 18 ویں ترمیم کے بعد محدود سی ایجوکیشن ہو اور اس پر ایک نگران وزیر ہمراہ ایم اسپیشل اسسٹنٹ ٹو کرائم منسٹر’’ایصالِ ثواب‘‘کیلئے لگا دیں ، عجیب سی نگرانی نہیں ہو جاتی یہاں تو روزمرہ کے امور نمٹانے کا معاملہ ہے اصلاحات کیلئے تو کوئی کمر نہیں کَسنی !
انصاف ہی کسی قوم کی اٹھان کا وہ بنیادی پتھر ہے جس کو فراموش کرکے عمارت سازی کا تصور ممکن نہیں۔ ہمارا بڑا مسئلہ نفسیاتی ہے نہ طبعی ہمارا بڑا مسئلہ معاشرے میں انصاف کی کمی کا ہے ، کسی سوسائٹی میں انصاف کی کمی کسی جسم میں آئیوڈین کی کمی کے مترادف ہے۔ عام فہم سی بات ہے کہ وہ جج ، بیوروکریٹ ، صحافی یا دانشور اپنے شباب کے وقت میں اپنے امور سے انصاف نہیں کر سکے وہ حکومتی عہدہ پر چراغ سحر ہوتے ہوئے کیا کچھ کر سکیں گے؟ کیا یہ تحریر کرنے کی ضرورت ہے کہ عالمی سطح پر ہمارے انصاف کے معیار کا مقام کیا ہے؟ انصاف پارلیمنٹیرینز نے اپنے آئین اور پارلیمنٹ سے بھی کرنا ہوتا ہے، صرف ججوں ہی نے مدعی اور ملزم سے نہیں کرنا۔ کوئی بتلائے گا کہ جنہیں سِول سرونٹ کہا جاتا ہے وہ اپنے آپ کو سِوِک سرونٹ سمجھتا ہے؟ مسئلہ کچھ یوں ہے کہ بیوروکریسی مِس یوز ہوتی ہے یا مِس یوز کرتی ہے۔ ایسی صورت میں عدلیہ کا کردار آ جاتا ہے۔ یہاں عدلیہ بِگڑی بیوروکریسی کا احسن علاج ہے۔ گر سِول جج سے اعلیٰ سطحی جج تک نظریہ ضرورت رگ و پے میں بَس جائے تو ترتیب پھر بگڑ جاتی ہے؟
’’نگران‘‘ کی نگرانی کی آخر ڈیموکریٹک قوتوں اور ترقی یافتہ ممالک کو کیوں ضرورت نہیں پڑتی؟ اس لئے ضرورت نہیں ہوتی کہ وہاں سیاست دان کی کریڈیبلٹی ہے۔ اور یہاں سیاست دان کریڈیبلٹی کھو چکا ہے بھلے ہی ایسا مائنڈ سیٹ تراشا گیا جو جمہوریت اور سیاست دشمن ہے۔ اسی لئے ایک کثیر تعداد نگہبان سے وہ نگہبانی چاہتی ہے جس میں اقلیت کا خیال ہو اور کوئی سانحہ جڑانوالہ جنم نہ لے، وہ نگہبانی کہ یونیورسٹیاں پلیجرزم چھوڑ کر پالیسی سازی ، ریسرچ، اکانومی اور انوویشن پر کام کریں۔ لاء والے آرٹیکل 10 اے پر کام کریں۔ بیوروکریسی 7ویں سے 28ویں آئینی دفعات کو مدنظر رکھے کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ صاحبان اختیار حق کے سنگ فرض کا ادراک رکھیں۔ کیا ہم خود احتسابی کے کلچر کو باہمی احتساب کے دائرے میں لاکر آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کر سکتے؟ نہیں کرسکتے تو کیوں؟ کون ہے جس کو جمہوریت کا تسلسل اور شفاف نظام نہیں چاہئے ؟ کوئی ’’نگران‘‘ایڈہاک ازم پر بھروسہ کرتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ سیاسی و سماجی و معاشی اور آئینی و قانونی دُکھ نگہبان کی تلاش میں ہیں!
