محترم مجیب الرحمن شامی بھارت میں کاروبار کی نوعیت اور ڈالر کے استحکام کے بارے میںاپنے مشاہدات کا تذکرہ کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے چاندنی چوک کے ایک دکاندار سے ڈالر کے عوض خریداری کی خواہش ظاہر کی تو جواب ملا یہ ہماری حکومتی پالیسی ہے کہ ڈالر کے عوض مقامی کرنسی صرف سرکاری بینکوں سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی دکاندار براہ راست ڈالر میں لین دین نہیں کرسکتا۔ ایک ہم ہیں کہ ڈالر کو باقاعدہ کاروبار بنا لیا ہے۔ اب تو رشوت بھی ڈالر میں لی جاتی ہے، اس کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی جاتی ہے، قومی خزانہ ایک ایک ڈالر کا محتاج ہے۔ مگر لوگ گھروں میں ڈالر پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔ یہ نظام ایسے نہیں چل سکتا، ڈالر کا لین دین صرف بینکوں کے ذریعے ہی ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا بلدیاتی نظام نہ صرف جمہوریت کی بنیاد ہےبلکہ ہمارے بیشتر معاشرتی مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کا واحد ذریعہ بھی۔ جب تک بااختیار بلدیاتی نظام رائج نہیں ہوگا ہمارے بنیادی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ یہ ادارے جمہوریت کی تربیت گاہ بھی ہیں، قومی و صوبائی انتخابات کی طرح بلدیاتی انتخابات کا مقررہ وقت پر ہونا ہمارے نظام کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔بھارت کی ترقی اور پاکستان کی تنزلی کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یاد رکھیں ملکوں کی ترقی میں صرف چند بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار خاندانوں کا کردار ایک حقیقت ہے۔ پچیس کروڑ عوام یا ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک کی ترقی انہی خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔ یہ خاندان اپنا سرمایہ صنعتوں کی شکل میں لگاتے ہیں جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور ایک دن آتا ہے کہ معاشی ترقی کاپہیہ تیزی سے گھومنے لگتا ہے۔ بھارت میں بھی چند ہی خاندان ہر طرف چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت نے انہیں مکمل تحفظ اور مواقع فراہم کئے ہیں۔ ان خاندانوں نے بھارت کو عالمی سطح پر ایک مضبوط معیشت کے طور پر کھڑا کر دیا ہے۔ پاکستان میں بھی چندہی کاروباری خاندان ہیں جو معیشت کا پہیہ گھماسکتے ہیں صرف انہیں اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔کچھ عرصہ بعد ترقی آپ کے سامنے ہوگی۔ اس تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ انتہائی مایوسی کے اس دور میں بھی روشنی کی کرن موجود ہے۔ اگر کوئی صاحب اقتدار و اختیار و انصاف سچے دل سے چاہے تو ہمیں اس بحرانی صورت حال سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ مل سکتا ہے۔ آج اگر غریب غربت کے ہاتھوں دم توڑ رہا ہے، بے روزگار نوجوانوں کا بپھرا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہے تو کل یہ بحران ایک طوفان کی صورت سب کو اپنی لپیٹ میں لے کر پورے کا پورا بوسیدہ نظام ملیا میٹ کردے گا۔ جب نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ دہشت گردی کے حوالے سے دنیا کو یہ انتباہ کررہے ہیں کہ اگر آج یہ دہشت گرد پاکستان کو نشانہ بنا رہے ہیں اور دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے تو دنیا اس وقت کا انتظار کرے کہ جب یہ دہشت گرد ان کے سہولت کار ممالک کو بھی نشانہ بنائیں گے ۔ماضی قریب کے گزرے ایک حکمراں اور طاقت وروں نے جب افغانستان میں رجیم چینج کی حمایت کی تھی اور کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کیا تھا ہم اس دن سے شور مچا رہے تھے کہ یہ دہشت گرد ہمارے گلے پڑ جائیں گے۔ ہم نے افغانستان کوڈالر بھی دیئے انہیں کھانے کو روٹی بھی دی اوراب انہیں بھگت بھی رہے ہیں۔ موجودہ بحرانی صورت حال پر قابو پانا ہے تو آؤٹ آف بکس فیصلے کرنا ہوں گے۔ پاک افغان بارڈر کو کم از کم چھ ماہ کے لئے سیل کرکے ڈالر، چینی، آٹا، دال ، چاول کی اسمگلنگ بند کرنا ہوگی۔ سرحدی اسمگلنگ میں ملوث ذمہ دار اہلکاروں کو قرار واقعی سزائیں دینا ہوں گی۔ ہم بھارت کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، سچائی تو یہ ہے کہ بھارت اور ہمارا اب کوئی مقابلہ نہیں۔ آپ مودی سرکار کو لاکھ پاکستان دشمن قرار دیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی سرکار نے بھارتی جنتا کو آسودگی دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ حال ہی میں چاول کا بحران پیدا ہوا تو مودی سرکار نے فوری طور پر چاول کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ سابق پی ڈی ایم حکومت نے جاتے جاتے مافیا کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دی۔جب چینی کی واردات کا کھوج لگایا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ جس مافیا نے چینی کی ایکسپورٹ سے لاکھوں ڈالر کمائے وہی مافیا ہماری ہی چینی ہمیں ہی مہنگے داموں واپس امپورٹ کرکے دے گا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر پاکستان کی معاشی بحالی کےبارے میں انتہائی فکر مند ہیں ان کے سامنے یہ آسان سوال رکھتے ہیں اگر ان سوالات کے مثبت جوابات مل جائیں تو ہم بحران سے نکل کر مہنگائی پر بھی قابو پا لیں گے۔
