نعیم مسعود

تین تعلیمی یکے اور غزالی کی بساط !

تین تعلیمی یکے ہاتھ میں رکھ کر جس طرح غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کھیلی ، یہ قابلِ رشک تھا اور قابلِ ذکر بھی ! وہ کہتے ہیں نا۔۔۔۔ ایک طرف اس کا گھر ایک طرف مے کدہ:
عالم کچھ یوں تھا کہ یہ بزم سیاست دانوں اور ماہرِ تعلیم کی کہکشاں بنی ، اس گلیکسی میں سابق طالب علم رہنما اور سبھی سے خوشگوار تعلق رکھنے والے لیاقت بلوچ اور سِول سوسائٹی کے نمائندگان کا پنجاب کے تین سابق وزرائے تعلیم رانا مشہود احمد ، راجہ یاسر ہمایوں سرفراز اور میاں عمران مسعود اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ غزالی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں آنے والے جنرل الیکشن اور پارٹیوں کے منشور میں تعلیم کے حوالے ڈھونڈنے تھے۔

سیاست دان کو ایسی محفلوں میں شامل کرنا سود مند ہوتا ہے کیونکہ ماہر تعلیم اور سیاست کاروں کے آمنے سامنے بیٹھنے سے چیلنجوں اور ضرورتوں پر براہ راست بات کرنے کے دریچے کھلتے ہیں۔۔۔۔۔
ہاں, وہ یاد آیا ، اس محفل میں پیپلزپارٹی کی نمائندگی بیرسٹر سلمان حسن نے کی، ایک دن قبل تک تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی سعدیہ سہیل سابق ممبر صوبائی اسمبلی آج استحکام پاکستان پارٹی کی نمائندگی کر رہی تھیں ( خیر، یہ سعدیہ سہیل نے خود فرمایا) ۔۔۔۔۔
اور تعلیم پر گہری نظر رکھنے والے دانشور سلمان عابد بھی وہاں موجود تھے۔

محرومیوں، مجبوریوں، چیلنجوں کی وہاں بڑی باتیں ہوئیں، حکومتی ہٹ دھرمیوں، بےشمار بچوں کے سکول سے باہر ہونے کی وجہ کے الزامات، یونیورسٹیوں کی حالت زار، ٹیچرز کے غیر معیاری رویوں، پلیجرزم، کم تنخواہوں کی صورت حال، سکولوں میں عمارتوں کا فقدان، بیوروکریسی عدم دلچسپی جیسے امور کے ہم نے جی بھر کے الزام دوسروں پر دھرے، اور حسبِ عادت الزام تراشیوں کا خوب لطف اٹھایا۔ بلاشبہ نورالہدیٰ کی سجائی محفل کی گفتگوؤں میں بہرحال جان تھی، غزالی فاؤنڈیشن کے روح رواں سید عامر محمود تو نکات اٹھاتے ہی ہیں تاہم کوالٹی ایجوکیشن ہر کام کرنے والے فورم “ساقی” کی محترمہ زہرہ ارشد نے بھی حالت زار کا دستاویزی کچا چٹھا کھولا، لمز سے ڈاکٹر طیبہ تمیم اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن کی ریسرچرز، Dr.Afaf ,چائلڈ پروٹیکشن سے سارہ احمد, کامران لون ( UNICEF Punjab) کی فراہم کردہ معلومات بھی حکمرانوں اور بیوروکریسی کیلئے قابل توجہ تھیں۔ اور اس تناظر میں سابق ایم این اے بشریٰ انجم بٹ اور سابق چیئرمین پی ایچ ای سی ڈاکٹر نظام اور ایجوکیشن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر طلعت نصیر نے بھی اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر نظام نے تو سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ ” بند کردیں روایتی یونیورسٹیاں، اور سوشل سائنسز ، فلسفہ اور فنی مہارتوں کے فروغ کی طرف آئیں۔۔۔۔۔”

فقیر نے جہاں موقع کی مناسبت سے گول میز ایجوکیشن کانفرنس کو سراہا وہاں دو گذارشات یہ کیں :

1۔ سیاسی نمائندوں نے جو اپنی پارٹیوں کا منشور پیش کیا وہ اہم ہے لیکن اصل بات ہے سیاستدان کا اقتدار پر چلنے کے بعد آئین کی شاہراہ پر چلنا، اور آئین کے 10 اے اور 25 اے کو مدنظر رکھ لیا جائے تو منشور ثانوی رہ جاتے ہیں ویسے بھی یہ زیب داستان سے زیادہ کچھ نہیں!

2۔ دوسری عرض کا خلاصہ یہ تھا کہ سیاست دان کام کرنا چاہے تو اس سے زیادہ امپیکٹ فُل “محکمہ زراعت ” ہوتا ہے نہ بیوروکریسی۔ تین مثالیں یہ دیں کہ:
ایک ایس ایس پی دوست، پھر ایک دفعہ ایک ضلعی ڈرگ کنٹرولر سے پوچھا ، اور ایک وائس چانسلر سے بھی کہ آپ سب سے زیادہ کس سے ڈرتے ہیں یہاں ڈر کا مطلب تھا کسے Impactful سمجھتے ہیں تو تینوں کا جواب سیاست دان تھا ہارا ہو یا جیتا۔ ان کا کہنا تھا : “ڈی سی و سیکرٹری سے عدالت تک کو چکر دیا جاسکتا ہے لیکن سیاست دان زودفہم ہوتا ہے پھر یہ بھی کسی وقت کہیں بھی کچہری لگا سکتا ہے! ”
لیڈر شپ ، بہرحال سیاست دان ہی جسے جرنیلوں سوچی سمجھی سکیم کے تحت گالی بنا دیا ، بیوروکریسی سے بھی سیاست دان زیادہ زیرک گر دیانتداری اور صلاحیتوں کو بروئے کار لے آئے۔۔۔۔۔ ہم نے جہاں ریسرچرز سے یہ عرض کی کہ پلیجرزم اور کرائم سنڈیکیٹ پر بھی کوئی ریسرچ لائیں وہاں سیاستدانوں کے سامنے یہ مطالبہ بھی رکھا:
یونیورسٹیوں کے اٰن “ایکٹس” کو ختم کریں جن میں وزیر سنڈیکیٹ کو چئر کرتا ہے تاکہ جامعات کی خودمختاری پر حرف نہ ائے۔ پی ایچ ای سی کو مضبوط کریں۔ اور ایچ ای سی کا پولیس والا کام روکیں۔ اور یہ جو سسٹم میں بس وزیرِ اعلیٰ اور سیکرٹری حرفِ آخر ہیں اس میں باقاعدہ وزیر کو بھی آن بورڈ رکھیں ، چانسلر آفس بھی محض ڈاکخانہ بن کر نہ رہ جائے۔

اجی، ہم نے تو پنجاب والوں کو ایک تڑکا بھی لگایا کہ سندھ میں تعلیمی و طبّی/ہیلتھ کام باقی صوبوں سے بہتر ہے…. لیاقت بلوچ صاحب نے ہیلتھ پر کان تو کان میں مان لیا مگر تعلیمی نہیں، بہرحال سندھ کے خلاف تعلیمی پروپیگنڈہ کے حوالے سید عامر محمود نے بھی کہا کہ وہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پراجیکٹ پر مربوط اور مطلوب کام ہو رہا ہے اور یوں سندھ بہتر کام کر رہا ہے!

تینوں سابق وزرائے تعلیم کی گفتگوئیں بھی پُراثر اور پالیسی ساز تھیں، رانا مشہود نے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو مزید منظم کرنے پر زور دیا، راجہ یاسر نے بھی پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن سے استفادہ پر زور دیا۔ لیاقت بلوچ نے جماعت اسلامی کے تعلیمی منشور کو مؤثر بیان کیا لیکن کئیوں کا منشور ہنوز دلی دور است والی بات تھی بہرحال جمعیت علمائے اسلام کے ڈاکٹر عرفان شجاع کا نقطہ نظر کوالٹی ایجوکیشن کی طرف بڑھنے کا تھا۔

المختصر ، جاوید ملک کا کہنا تھا کہ ایک دور میں 17، 18 سیکرٹری بدل جاتے ہیں ، درست کہا ، اس سے تعلیمی و تنظیمی بیڑا غرق ہوتا ہے ، پھر بھی، سیاست دان کو اپنا حقیقی قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا، بیوروکریسی جو بھی ہو۔۔۔ حکومت ، والدین اور ٹیچرز تعلیم کے اصل اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر کو صحت مندانہ مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔ فقیر نے تو صاف کہا تھا کہ سرکاری سیکٹرز کے کرتے دھرتوں کو پرائیویٹ سیکٹر کی تھاپ پر تھاتھیٔا تھاتھیٔا سے اجتناب کرنا ہوگا۔ تعلیم میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔۔۔۔۔ وقت چونکہ کم تھا چنانچہ ہائی لائٹس ہی میں بات ہو سکتی تھی۔۔۔۔۔

بہرحال شکریہ غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن/ ٹرسٹ کہ آپ علم کی شمع جلائے اور مکالمہ کی خوشبو پھیلائے رکھتے ہیں بہرحال بات وہی کہ “تعلیم میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا, امریکہ گر امریکہ ہے، تو اس کی ساڑھے پانچ ہزار انسٹیٹیوشنز کی ریسرچ بِکتی ہے، پلیجرزم زدہ پیپرز ہوں یا غیر معیاری ریسرچ سب بےکار ہیں سرکار کیلئے بھی اور صنعت کیلئے بھی ، بس یہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اور جو ڈاکٹر نظام نے فرمایا اس کا مطلب بھی یہی تھا،
کاش کوئی ہماری باتیں “مائنڈ” ہی کرلے!
26 اکتوبر 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں