گزشتہ دنوں گلگت بلتستان اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کا جس طرح الیکشن ہوا۔اس نے ایک مرتبہ پھر جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کا ایمان متزلزل کردیا۔اسمبلی میں موجود اکثریتی پارٹی کو باہر کرنے کیلئے انتظامی حربے استعمال کرتے ہوئے اقلیتی پارٹی میں تبدیل کرکے باغی گروپ تشکیل دے کر وزرات اعلیٰ تشتری میں رکھ کر انہیں پیش کردی گئی۔33ارکان کی اسمبلی میں 22نشستیں رکھنے والی تحریک انصاف میں نیا گروپ بنواکر19ووٹوں سے وزیر اعلیٰ گلبر خان اقتدار میں آگئے۔تحریک انصاف نے بائیکاٹ کردیا اور اس طرح گلگت بلتستان میں جمہوری روایات کی پاسدار ی میں حکومت قائم ہوگئی۔اس سے قبل جس دن وزیراعلیٰ کا انتخاب ہونا تھا اس دن عدالت عالیہ جی بی نے حکم امتناعی جاری کردیا۔آئی جی پولیس کو بدل دیا گیا۔اس طرح مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے متفقہ امیدوار کامیاب ہوگئے۔کیا سیدھی سادی گنتی سے الیکشن ممکن نہ تھا۔جمہوریت کا یہ کونسا گروپ ہے کہ اکثریتی پارٹی اپوزیشن میں بیٹھے اور اقلیتی پارٹی وزرات اعلیٰ کی کرسی انجوائے کرے۔ اس سے پہلے پاکستا ن کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کراچی میں جس طرح بلدیاتی انتخابات ہوئے اور سندھ کی حکمراں جماعت نے اپنی دھونس دھاندلی سے شہر کا میئر منتخب کروایا اس نے جمہوریت پسندوں کو شدید دھچکا دیا۔کراچی میں پیپلز پارٹی کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان،جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف بڑی پارٹیاں تھیں۔اس کے علاوہ مسلم لیگ ن جمعیت علمائے اسلام ف ،مہاجر قومی موومنٹ اور دیگر جماعتیں بھی موجود ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان شروع ہی مردم شماری کے ایشو پر سیاست کر رہی تھی اور اسی بنیاد پر حلقہ بندیوںکی تشکیل کی خواہاں تھی۔اس کیلئے ایم کیو ایم پاکستان نے سیاسی محاذ کے ساتھ ساتھ عدالتی جنگ بھی طوالت سے لڑی۔ بلدیاتی انتخابات کے قانون کو بھی اپ ڈیٹ کروایا مگر عین وقت پر بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کرکے میدان جماعت اسلامی،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کیلئے کھلا چھوڑ دیا۔تحریک انصاف حکومت ختم ہونے کے بعد اپنی بقا ء کی جنگ لڑ رہی ہے۔لہٰذا جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا۔دونوں جماعتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔پیپلز پارٹی کو صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتوں کی مکمل سپورٹ حاصل تھی جبکہ جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان پر بھروسہ کر رہی تھی جنہوں نے اپنی ہمت بساط او ر طاقت سے زیادہ زور لگا کر جماعت اسلامی کو کراچی میں اکثریت دلوادی ۔دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور تیسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف رہی۔جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مل کر باآسانی اپنا متفقہ مئیر منتخب کروا سکتی تھیں۔مگر ہوا وہی جو پیپلز پارٹی کی حکومت چاہتی تھی انہوں نے تحریک انصاف کے ارکان کو گرفتار کیا،ایوان سے غیر حاضر کروادیا۔اور جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی اکثریت کو عددی اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔اس طرح پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب، جو بلدیاتی انتخابات میں کسی حلقے سے منتخب بھی نہیں ہوئے تھے، میئر منتخب ہوگئے۔کیوں کہ صوبائی حکومت نے بلدیاتی الیکشن کے قانون میں تبدیلی کرکے غیر منتخب شخص کو میئرکا الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی تھی۔لہٰذا مرتضیٰ وہاب اس قانون کے تحت میئر منتخب ہوگئے۔جمہوریت کا یہ چہرہ نہیں ہے یہ تو نری دھونس اور دھاندلی ہے۔جمہوریت کی ہر وقت مالا جپنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت جو جمہوریت کو بہترین انتقام گردانتی تھی۔جس نے اس ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئےسب سے زیادہ قربانیاں دیں اس کے زیر سایہ یہ سب کچھ ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پارٹی عددی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے اقتدار پر قبضہ جمانا اپنا حق سمجھتی ہے؟یہ یقیناً جمہوریت پسندوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔جمہوریت میں سیدھی سادی گنتی کی جاتی ہے اور جس کے حق میں اعداد ہوں وہ حکومت بنالے ۔مگر اب اس طریقہ کار کو نہیں اپنایا جارہا ۔کراچی کے بلدیاتی انتخابات اور میئر کا الیکشن اس کے بعد گلگت بلتستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ کا الیکشن اس بات کی غمازی کرر ہے ہیں کہ یہ جمہوریت نہیںبلکہ جمہوریت کی شکل کو بگاڑا جا رہاہے تاکہ لوگوں کا جمہوریت پر سے یقین ہی اٹھ جائے۔اس طریقہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔جمہوریت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کا اپنے ووٹ پر یقین قائم رہے۔
