Muhammad mehdi

آگ لگ چکی !

افغانستان سے جڑی پاک سر زمین گرم سے گرم تر ہوتی جا رہی ہے اور خاکم بدہن اگر حالات کا پہیہ یونہی گھومتا رہا تو وہ وقت زیادہ دورنہیںکہ اس کی تپش سے پورے پاکستان کے تلوے جل رہے ہونگے ۔ باجوڑ میں جے یو آئی کے ورکرز کنونشن پر حملہ آنکھیں کھول دینے کیلئے نیا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک تسلسل ہے اور اس حوالے سے ایک سے ایک کڑی جڑتی اور بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ بالخصوص جے یو آئی کو کیوں نشانہ بنایا گیا ہے اس پر علیحدہ سے غور و فکر درکار ہے ۔ یہ جاننے کیلئے کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں کہ اس میں صرف ہمارا افغان ہمسایہ ہی ملوث نہیں بلکہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کالعدم تنظیموں میں پیسے اور وسائل کی بنیاد پر اچھا خاصا اثر و رسوخ بھی قائم کرلیا ہے اور وہ ہی دہشت گردی کی ہر کارروائی کی اصل منصوبہ ساز ہیں ۔تاہم صرف یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں ہوا جا سکتا ۔ ہماری اپنی حکمت عملی اس حوالے سے کس حد تک مؤثر ہے اور اگر کہیں بے اثر ہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں اور اس کو مؤثر کیسےبنایا جا سکتا ہے ؟ اصل سوال تو یہ ہے کیوں کہ بھارت تو وہ ہی کرےگا جو وہ کرتا چلا آیا ہے اور اس سے اس سلسلے میں کوئی گفتگوبھی سعی لا حاصل کے سوا کچھ نہیں ۔ ہمیںاس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہماری افغان پالیسی میں ایسے کئی جھول ہیں، جن کی وجہ سے ہم بار بار اپنی گردن افغان حالات کے سبب پیش کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ ہمارے فوجی جوانوں اور دیگر شہریوں کی شہادتوں سے روز ہماری زمین رنگين ہو رہی ہے ۔ فرسٹ پٹ یور ہاؤس ان آرڈر ، کیا ہم اس پر عمل پیرا بھی ہیں، بد قسمتی سے اس کا جواب نفی میںہے ۔ کالعدم تنظیميں تو جو کر رہی ہیں وہ چھپ چھپا کر کر رہی ہیں ان کو تلاش کرنا پڑتا ہے مگر وطن عزیز میں ان کےحامی عناصر جو بغیر کسی شرم و حیا کے اپنے ہی ملک میں خود بھی خون کی ہولی کھیلتے رہے ہیں، اب بھی ان کالعدم تنظیموں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں، ان عناصر کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ۔ کم از کم ان کی عوامی سرگرمیوں کی ہی تالا بندی کر دی جاتی مگر اتنی شہادتوں کے بعد بھی اس طرف توجہ نہ دی گئی ، یاد رکھئے انہی کا پھیلایا ہوا گند سوشل میڈیا پر ہر وقت نظر آتا ہے مگر اس کو ہم نظر اندازکئےبیٹھےہیں۔اس صورتحال کا دوسرا پہلو افغانستان سے منسلک ہے ۔ یہ تو طے شدہ حقیقت ہے کہ افغان طالبان پاکستان کو پیش نظر رکھتے ہوئے دوحہ معاہدہ پر عمل درآمد سے منکر ہو چکے ہیں مگر جب یہ معاہدہ ہو رہا تھا تو ہم اس حوالے سے افغان طالبان کی نیت کا مکمل ادراک کیوں نہ کر سکے ؟جہاں تک افغان طالبان کی اس حوالے سے صلاحیت کی بات ہے تو اس دن بھی بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا تھا جب انہوں نے اشرف غنی کو کابل سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا تھا کیوں کہ بظاہر تو ان کا قبضہ افغانستان پر مستحکم ہو رہا تھا مگر ایئر پورٹ پر داعش جو اب افغانستان،پاکستان میںدولتِ اسلامیہ، ولایت خراسان کے نام سے سرگرم ہے ،نے خود کش حملہ کر کے یہ واضح پیغام دے دیا تھا کہ وہ افغان طالبان کی اس کامیابی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور بعد میں بھی انہوں نے افغانستان میں مسلسل حملے کر کے بلکہ امریکہ کی موجودگی کے وقت سے زیادہ حملے کر کے افغان طالبان کیلئے سب سے بڑا سر درد واضح کردیا ہے ۔ افغان طالبان اس اندرونی خطرے سے نمٹنے کیلئے بہت متحرک ہیں مگر یہ خطرہ ہے کہ شیطان کی آنت کی مانندطویل ہوتا چلا جا رہا ہے اور اسی خطرے کی وجہ سے افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے گریزاں ہیں کیوں کہ وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس کے خلاف کارروائی کی تو کہیں یہ تنظیم داعش کی بیعت نہ کرلے اور افغان طالبان ایک ایسا نیا محاذ نہیں کھولنا چاہتے کیوں کہ پہلے ہی داعش کے ساتھ افغان طالبان کے منحرفين شامل ہو چکے ہیں ۔ دوسرا مسئلہ ان کی نیت کا بھی ہے کیوں کہ ان میں سے ایک قابل لحاظ تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ان کی کالعدم ٹی ٹی پی نے بہت مدد کی تھی اس لئے ہمیں بھی ان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنی چاہئیں اور ان کے خیال میں یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس طرح ان پر پاکستان کی پراکسی ہونے کا تاثر بھی دھل جائے گا اور وہ دنیا سے اور بالخصوص بھارت سے وہ فوائد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو حاصل تھے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جے یو آئی کو کیوں نشانہ بنایا گیا ہے تو اگر کوئی تعصب کی پٹی اتار کر ، آنکھیں کھول کر دیکھے تو دیکھ سکے گا کہ مولانا فضل الرحمن اور جے یو آئی ایک غنیمت ہیں کہ انہوں نے انتہا پسندی اور مذہبی تشدد کے آگے بند باندھا ہوا ہے اور دشمن اس بند کو ہی توڑنا چاہتا ہے تا کہ جے یو آئی کو پسپا کر کے اپنے قدم جما سکے، قدم پھر کیسے جم جائينگے تو بس میرے تھوڑے کہے کو زیادہ سمجھئے ، یہ ایسا ہی حملہ ہے جیسے اے این پی پر ہوئے تھے کہ وہ غیر مذہبی بنیادوں پر ان عناصر کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن مذہبی شناخت رکھتے ہوئے مخالفت کر رہے ہیں ۔ پاکستان کو کیا کرنا چاہئے ؟ اول تو ابھی افغان طالبان سے مکمل طور پر مایوس ہونے کا وقت نہیں آیا ہے ان کے مسائل بھی حل کرنے چاہئیں اور ان کو دولت اسلامیہ ولایت خراسان کے قلع قمع کیلئے انٹیلی جنس اور ہر قسم کی امداد فراہم کرنی چاہئے اور پھر ان کو افغانستان میں موجود کالعدم تنظیموں کے مسئلہ پر قائل کرنا چاہئے سب نہ بھی قائل ہوئے مگر کچھ تو قائل ہونگے ہی کیوں کہ ان کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ اگر وہ اس طرح ہی حکومت چلاتے رہے تو پھر دوبارہ کسی حادثے کا شکار ہو جائینگے ۔ دوئم ابھی امریکہ کے وزیر خارجہ سے پاکستان کی گفتگو ہوئی ہے اور خبر ہے کہ اس میں دہشت گردی کے مسئلہ پر امریکی تعاون جو آلات کی فراہمی وغیرہ کی شکل میں ہوگا پر سیر حاصل بات ہوئی ہے ۔ دنیا کو یہ سمجھانا بھی چاہئے کہ پاکستان کی مدد کرنے سے صرف پاکستان میں امن قائم نہیں ہوگا بلکہ دنیا زیادہ پر امن ہوگی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں