Hazrat Khadijah Kubra (A.S.).

🌹 حضرت خدیجه کبریٰؑ کی وصیتیں 🌹

 

جب آپ کی بیماری سنجیدہ حالت اختیار کر گئی توآپ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا:
“یا رسول اللّه! اِسمَع وصایای‘‘
’’اے رسول خداﷺ! “میری وصیتوں کو سن لیجئے!‘‘

«أولا، فإنی قاصرةٌ فی حقِک، فاعفُنی ۔یا رسول اللّه:
پہلی بات یہ کہ میں آپ کا حق ادا کرنے میں قاصر رھی ھوں؛ آپ سے درخواست ھے کہ مجھے معاف فرمائیں!‘‘».

رسول خداﷺ نے فرمایا:
حاشا و کلا، ما رأیتُ منکِ تقصیرا فقد بلغتِ جهدکِ و تعبتِ فی ولدی غایةَ التعبِ، و لقد بذلتِ أموالَکِ و صرفتِ فی سبیل اللّه مالَکِ۔

ھرگز ایسا نہیں ھے،، نه صرف یہ کہ میں نے آپ سے تمام رفاقت ازدواجی میں معمولی سے بھی کوتاھی و غلطی نہیں دیکھی بلکہ آپ نے بچوں کی تربیت و دیکھ بھال میں اپنی پوری کوشش کی ھے ، اس راہ میں سختیوں کو تحمل کیا ھے اور آپ کے پاس جو بھی مال تھا آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا:
یا رسول اللّه! الوصیةُ الثانیةُ؛ أوصیکَ بهذه- أشارت إلى فاطمةَ علیها السّلام- فإنها یتیمةٌ غریبةٌ من بعدی فلا یۆذینها أحدٌ من نساءِ قریش و لا یلطمن خدَّها و لا یصحن فی وجهَها و لا یرینها مکروها۔

میری وصیت دوم یہ ھے کہ اور اسی وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی جانب اشارہ کیا، میری یہ بیٹی میری وفات کے بعد یتیم ، تنہا ور اکیلی ھو جائے گی،اس کا خیال رکھیئے گا کہ قریشی عورتوں میں سے کوئی اسے تنگ نہ کرے، اسے تکلیف نہ دے اس پر ھاتھ نہ اٹھائے کوئی اس کے سامنے آواز بلند نہ کرے(چیخے چلائے نہیں) اور کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جس سے فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا ناراض ھو!

“و أما الوصیةُ الثالثةُ، فإنی أقولها لابنتى فاطمة علیها السّلام و هی تقول لک، فإنی مستحیةٌ منکَ یا رسول اللّه”

اورمیری وصیت سوم یہ ھے کہ جسے میں اپنی نور نظر فاطمه علیھا السلام سے کہوں گی اور وہ آپ سے کہہ دے گی، اس لئے کہ مجھے آپ سے براہ راست کہتے ھوئے شرم محسوس ھو تی ھے۔

فقام النبی صلّى اللّه علیه و آله و خرج من الحجرة، فدعت بفاطمة علیها السّلام و قالت:

یہ سننے کے بعدرسول خداﷺکھڑے ھو گئے اور حجرے سے باھر تشریف لے گئے. جناب خدیجه کبریٰ سلام اللہ علیہا نے حضرت فاطمه زهراء علیہاالسّلام کو اپنے نزدیک بلایا اور کہا:

“یا حبیبتی! و قرة عینی، قولی لأبیک: إن أمی تقول: إنی خائفة من القبر، أرید منکَ رداءَکَ الذی تلبِسُه حین نزول الوحی؛ تکفننی فیه”
’’اے عزیز دل من! اوراے میری قلب کی خوشی و راحت کے سامان! اپنے بابا سے کہو کہ میری ماں یہ کہہ رھی ھے :مجھے قبر سے خوف محسوس ھوتا ھے میری آپ سے درخواست ھے کہ آپ مجھے اس عباء کا کفن دیئے گا کہ جس میں آپ پر وحی نازل ھوئی تھی۔‘‘»

حضرت فاطمه علیہاالسّلام فوراً حجرے سے باھر تشریف لائیں اور اپنی والدہ حضرت خدیجه سلام اللہ علیہا کا پیغام رسول خداﷺ تک پہنچا دیا۔.
حضرت رسول اللہ ﷺ فوراً اٹھے اور آپ نے اپنی عبائے مبارک حضرت فاطمه علیہاالسّلام کو دے دی. جب حضرت زھراء علیہاالسّلام رسول اللہ ﷺ کی وہ عبا ء حضرت خدیجه علیہاالسّلام کو دی تووہ بہت زیادہ خوش ھوئیں!.

جب حضرت خدیجه علیہاالسّلام کی رحلت ھو گئی تو رسول خداﷺ نے خود بنفس نفیس آپ کو غسل دیا اور حنوط کیا۔ جب کفنانے کا وقت آیا تو حضرت جبرئیل امینؑ نازل ھوئے اورعرض کیا:
“یا رسول اللہ ﷺ! *خداوندنے آپ کو ھدیہ سلام دیا ھے اور نہایت خاص صورت میں تحیت و اکرام کیا ھے اورآپ سےفرماتا ھے:
«إن کفن خدیجة من عندنا، فإنها بذلت مالها فی سبیلنا:”

آپ کی شریکہ حیات خدیجه سلام اللہ علیہا کا کفن ھمارے ذمہ ھےاس لئے کہ اس نے اپنی تمام تر ثروت کو ھماری راہ میں لٹا دیا»

اس کے بعد حضرت جبرئیل نے کفن رسول اکرم ﷺ کو دیا:

“یا رسول اللّه! هذا کفن خدیجة و هو من أکفان الجنة، أهداه اللّه إلیها”

’’اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ کفن خدیجه الکبریٰ سلام اللہ علیہا ھے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنتی کپڑوں سے تیار کر کے انہیں ھدیہ کیا ھے!‘‘

حضرت رسول خداﷺ نے پہلے اپنی شریکہ حیات کو اپنی عبا کا کفن دیا اور اس کے بعد جنتی کپڑوں سے تیار کردہ کفن آپ کو دیا۔ یوں حضرت خدیجه سلام اللہ علیہا دو کفنوں کے ساتھ سپرد خاک کی گئیں؛ ایک کفن از طرف خدا اور ایک از طرف رسول اللہ ﷺ!
یہ وہ اعزاز ھے امہات المؤمنین میں سے سوائے ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کے کسی کو حاصل نہیں ھوا

📚 حوالہ جات
شجره طوبى، الشیخ محمد مهدی الحائری، ج2، ص 234۔
ابن حجرالاصابه، ج4، ص275۔
شرهانی، حیاة السيدة خديجه، ص 282۔
محلاتی ، ریاحین الشریعه، ج2، ص412۔

اپنا تبصرہ بھیجیں