نعیم مسعود

مُقتدر کا بارہواں کھلاڑی یامُقدر کا ؟

جمہوریت سادہ سی بات اور سیدھا سیدھا عمل ہے: مشاورت اور جواب دہی۔ کوئی لمبے لمبے قصے کہانیاں یا اگر مگر والی بات ہی نہیں!
گر کوئی “اگر مگر” ہے تو وہ محض مشاورت میں اور وہ بھی انسانی حقوق کی پاسبانی اور نگہبانی کے تناظر میں ، اس لیے نہیں کہ آمریت کا تڑکہ لگا لیں یا جمہوری اطوار پر آٹوکریسی کا لیموں نچوڑ لیں۔ اشرافیہ و غیر اشرافیہ اور اکثریت و اقلیت کو زندگانی کے تمام امور میں برابرہموار راستوں کی فراہمی ہی تو جمہوریت ہے، باریک بینی سے غور فرمائیں تو کسی شرک یا بدعت والا معاملہ بھی جمہوریت کے اجزائے ترکیبی میں نہیں ملے گا۔
بات جمہوریت اور آمریت کی ہو تو یہ دونوں مخالف سمتیں ہیں۔ بات اگر مقتدر اور جمہوریت کی ہو تو اس کا مطلب مخالف سمتوں ہی کا سفر ہو یہ ضروری نہیں، یہ باہمی اعتماد ، باہمی مکالمہ ، باہمی اختلاف اور میکانزم کا اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر مقتدر صریحاً جمہوریت مخالف ہی قبا پہن لے اور راستہ ہی بدل لے تو پھر نظام ، ریاست اور شہریوں کے تحفظات درست ہوں گے۔ یہاں پھر مقتدر کو یہ کہنے کی نوبت آجاتی ہے کہ “اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت ” اور یہ بھی کہ، جمہوریت پسند بہرحال عوامی نمائندہ ہوتا ہے پس “دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ”!
سوال پیدا ہوتا ہے سیاستدان جمہوریت کیلئے سر کیوں نہیںجوڑتے؟ جمہوریت کیلئے سر جوڑنا نظریہ سے بےوفائی ہے نہ مشن سے روگردانی،یہ تو ہم عصروں ، ہم نواؤں اور مخالف رائے کے ساتھ مکالمہ اور مشاورت ہے جو جمہوریت کی روح ہے۔
مسلم لیگ نواز 2008 کے الیکشن سے گریزاں تھی بےنظیر بھٹو اور آصف زرداری نے انہیں الیکشن لڑنے میں نفسیاتی اور اخلاقی معاونت دی کیونکہ میثاق جمہوریت کا تقاضا یہی تھا پھر اہل وطن نے دیکھا کہ قاف لیگ کو شکست فاش ہوئی، پنجاب میں مسلم لیگ نواز نئے سرے سے مضبوط ہوئی۔ سن 2014 کے دھرنے میں اسمبلی میں پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ نواز سے پارلیمانی و اخلاقی و روایتی تعاون کیا۔ اگر ماضی میں 18 ویں ترمیم بھی نہ ہوتی ، اور آصف زرداری نے اپنے دورِصدارت میں پارلیمنٹ کو وہ تقویت بخشی جس کی مثالی تاریخ ہے۔ گویا آصف علی زرداری کی جمہوری خدمات اور مصالحت و مفاہمت کی رعنائی کو متعصب تو فراموش کر سکتا ہے، جمہور پسند نہیں۔
جہاں تک مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ نواز کی جانب سے زرداری پالیسیوں کو تنقید کا ہدف بنانا ہے یہ نہ غیرمعمولی بات ہے اور نہ سیاسی عجوبہ۔ فقیر بیسیوں دفعہ عرض کر چکا قبل از انتخابات میںمسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے ہوں گی اور اِٹ کھڑکا بھی لازم ہے، لیکن جہاں مسلم لیگ نواز کو سیاسی مقاصد کیلئے سیاسی داؤ پیچ کی ضرورت پڑے گی تو ٹاکرا ہو کر رہے گا بھلے ہی آصف علی زرداری نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے اور مولانا فضل الرحمٰن کے صاحبزادوں اور پارٹی کو ضرورت سے زیادہ وزارتیں پی ڈی ایم پلیٹ فارم پر بانٹ کر دی ہوں حالانکہ پیپلزپارٹی حکومت کا حصہ تھی پی ڈی ایم کا نہیں۔ آج چار دن مسلم لیگ نواز کے درجہ چہارم کے مبصرین یا لیڈرشپ اور مولانا فضل الرحمن بھی جی بھر کر آصف زرداری پر تنقید کر لیں مگر پھر مشکل میں شہباز شریف ازخود زرداری کیلئے ریڈکارپٹ بچھائیں اور صدقے واری جائیں گے، فقیر کی نہ مانیے تاریخ اٹھا لیجئے!
آصف زرداری نہ مذہب کارڈ کو استعمال میں لائیں گے نہ خواہ مخواہ فوج مخالفت ڈھنڈورا پیٹیں گے تاہم اصولی و جمہوری موسیقی کی سارنگی چھیڑنا ان کی فطری ادا ہے اس میں کسی کو نغمگی لگے یا سائرن ، یہ سب سوچ اور سمجھ پر منحرف ہوگا۔ الیکشن کا مطالبہ اور مصاحبہ سامنے لانے پر اگر کسی سیاسی جماعت کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں ، یا وہ جماعت جس کا ایک بھائی ملک میں وزیراعظم اور مقتدر ستارہ اور دوسرا بھائی لندن میں اپوزیشن لیڈر یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا استعارہ ہو ، اور وہ جماعت اگر بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری کے مابین الیکشن کے جلدی اہتمام میں مختلف سوچ پر غیر واضح اور غیر ضروری شادیانے بجائے تو سبحان اللہ کہنے کے علاوہ کم از کم میرے پاس اور کچھ نہیں ! فقیر کی تو یہ شدید خواہش ہے کہ جمہوری بقا ، شفا اور رفاہ کیلئے بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری میں خوب بحث ہونی چاہئے جو منظر عام پر آئے کیونکہ یہ بھی مجھے یقین ہے، ان سب چیزوں کے باوجود نہ نون سے شین نکل سکتی اور نہ بلاول اور زرداری میں جمہوری دراڑ ممکن ہے!
الیکشن کرانے ضروری ہیں، نہیں کرائے جائیں گے تو سب مزید مشکوک ہوتا چلا جائے گا جو “جمہوریت کُش ” ہوگا۔ اگر مقتدر میں دم خم ہے جو کہ یقیناً ہے، تو بارڈر کی اسمگلنگ ، آٹا چینی کی ذخیرہ اندوزی ، بجلی کی چوری اور ڈالر کی ہیرا پھیری کو منتخب نمائندوں کے ہم جولی ہوکر اور جمہوریت کے سائبان تلے بھی روکا جا سکتا ہے ۔ اقتدار کی وسعت اور مقتدر کی دانش ریاست کو چار چاند لگا سکتی ہے کبھی دونوں فرصت میں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کے 1933 والے لیکچرز،نیشنل انڈسٹری ریکوری ایکٹ(NERA ) اور ایمرجنسی بینکنگ ایکٹ سی 100 روزہ “نیو ڈیل” کا مطالعہ فرما کر اور عملی جامہ پہنا کر تجربہ کر لیں !
موجودہ سیاسی موسم میں نئے اتحاد بنیں جو پرانے نشانات و مشاہدات پر مبنی ہیں تو اچنبھے والی کیا بات ہے؟ مزا آئے گا گر جی ڈی اے، ایم کیو ایم اور نون لیگ مل کر سندھ میں مقابلہ کریں۔ حالانکہ ممکن نظر نہیں آ رہا کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی قریب ہوں مگر ادھورے اور انجانے بیانوں ہی سے مسلم لیگ نواز طوفان کیوں کھڑا کر رہی ہے حالانکہ آج کل مسلم لیگ نواز ٹیم اے اور تحریک انصاف نما مقتدر کی بی ٹیم ہیں ۔ یہ بھی واضح رہے “پیارے ” نہ مسلم لیگ نواز کو جینے دیں گے اور نہ خان کو سیاسی طور پر مرنے دیں گے۔ رہی زرداری صاحب کی بات وہ مقتدر کے بارہویں کھلاڑی بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی مقدر کے بارہویں کھلاڑی ہیں کہ مقتدرہ ان کے مفاہمتی بادشاہ ہونے سبب مار سکتی نہیں اور قربت میں رکھنا خطرناک سمجھتی ہے۔ کیوں خطرناک سمجھتی ہے؟ …کہ زرداری ڈیموکریسی کا اوپنر ہے لیکن مقدر کا بارہواں کھلاڑی !

اپنا تبصرہ بھیجیں