muhammad khan abru

نام نہاد قوم پرستوں کے نام۔۔۔

سچا سنڌ پرست قوم پرست پاڻ ڏي نه سمجهن!
سندھ کے خطے میں قوم پرستی اور وطن پرستی کی جڑیں بہت گہری ہیں، سندھ دشمنوں نے ان جڑوں کو تناور درخت بنتے دیکھا اور پھر سینکڑوں بار سندھی وطن پرستی کی جدوجہد کے تناور درختوں کو دشمنوں سمیت اپنوں کے ہاتھوں کٹتے دیکھا ہے، ورنہ اس دھرتی کے سب سے بڑے سپوت سید زادے جی ایم سید کو ساری عمر جیل میں ڈالنے کی کس کو ہمت کبھی بھی نہ ہوتی اگر سندھ دریا کا پانی پینے والا بچہ بچہ سائیں کے نظریئے کی حفاظت میں کھڑا ہوتا ؟ اگر سندھی نام نھاد قوم پرست ادیب جاگ رہا ہوتا تو پھر کس کو ہمت ہوتی کہ ذولفقار علی بھٹو کو سیاہ رات میں سولی چڑھاتا ؟ وطن پرستی اور سندھ دھرتی سے جھوٹے سچے وچن کرنے والے اگر جاگ رہے ہوتے تو شاھنواز بھٹو کو زھر دے کر قتل کرنے کی کس میں جرات ہوتی ؟ اگر سندھو دھرتی کے بیٹے غفلت کی نیند سو نہ رہے ہوتے تو کس میں ہمت ہوتی کہ میر مرتضی بھٹو کا وار شھید بی بی کا دن دہہاڑے قتل کرسکتے ، بات نکلے گی تو بڑی دور تک جائے گی۔ ہوش محمد شیدی یا سوریھہ بادشاہ بننے کے لیے سر پر کفن باندھنا پڑتا ہے اور سندھ کی موجودہ پہلے، دوسرے اور کیا تیسرے درجے کی نام نھاد سوشل ایکٹویسٹ قوم پرست ادیب اور سندھی قیادت وطن یا کفن کا نعرے سے ناآشناء ہے،؟ انھیں علم ہی نہیں کہ سندھو دریا اوباڑو سے نہیں کشمیر سے بہتا ہے جس پر ناجائز قبضہ ہے۔ مورخہ 18 اگست کو جنگ میں پی پی پی پنجاب کے رہنما مرتضی حسن پر میرا کالم چھپا تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اچھے خاصے پڑھے لکھے اور نام نھاد سندھی ادیب بھی مجھے وطن دشمن قرار دینے کی دوڑ میں شامل ہوگئے کیوں کہ میں نے پی پی پی قیادت کوسخت تنقیدی موقف کے بعد مشورہ دیا تھا کہ جن پی پی پی پنجاب کے رہنماؤں کو سندھ کے کوٹے پے ضرورت پڑنے پر سینیٹر اور خواتین کی مخصوص قومی اسیمبلی کے نشتوں پر اسمبلی اور سینٹ میں لایا جاتا ہے ان کی ترقیاتی اسکیمیں پنجاب کے ان حلقوں میں لگوادی جائیں جہاں سے پی پی پی کے ایم پی اے اور ایم این اے جیتنے کو پوزیشنیں میں ہو، سینٹر پلوشہ خان، مصطفی نواز کھوکر اور ماضی میں رحمان ملک وغیرہ کو سندھ سے منتخب کروایا گیا اور یہ بھی سچ ھے کے ان کے پاس سندھ میں کوئی حلقہ انتخاب بھی نہیں تھا انکو سندھ سے منتخب کروانا بھی اصولی طور پہ غلط ھے لیکن ، اگر وہ سندھ سے کامیاب ھونے کے بعد ، پنجاب میں بجائے اپنے علائقے میں کام کروائیں ، کسی ایسے حلقے میں کام کروادیں جھاں سے پ پ کامیاب ھوتی رھی ھے جس کا فائدہ سندھ کی نمائندھ جماعت پ پ کو ہوسکتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے ؟ سندھ سے کیا غداری ھے ؟کون سا میں نے سندھ کے وسائل اور خزانہ اٹھا کے پنجاب کے حوالے کردیۓ؟ اور کیا ایسا کرنے کا مجھے کوئی اختیارھے؟ ،مگر میرے کالم کے بعد ہزاروں کی تعداد میں سندھ کے نام نھاد قوم پرست ادیب ، تجزیہ نگاروں اور نا سمجھ نوجوانوں نے میری خلاف ،سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر غلط اور بیھودھ مھم چلا دی، ہم سندھی تو بٹھائی اور شاہ لطیف سرکار کے چاہنے والے ہیں جہاں سے ہمیشہ امن، بھائی چارے اور برداشت کا درس ملا تھا، یہ 2023 کے سندھی قوم پرست سیاست سندھیوں کے ہی جو ایک کالم نگار کی راء کو ملک دشمن قرار دے رہے ہیں، چند مفاد پرست پی پی پی کی نفرت میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم کی صفوں میں کل تک کھڑے تھے۔ میں سندھ کی قوم پرستی اور سندھ وطن پرستی کا سپاہی ایسے سیاہ دور میں رہا ہوں جب ملک میں مارشل لاہ تھا، سندھی جمہوریت کے لیے قربانیاں دے رہے تھے، سندھی قوم پرست قتل ہوتے آئے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی رہنما نے اپنا رہنما یا قافلہ بدلا ہو لیکن افسوس یہ ہے کہ نئے بننے والے سندھی قوم پرست رھنمائوں کی گھروں میں سائیں جی ایم سید کی جگہ ان کی اپنی تصاویر لگی ہوئی ہیں، میں پیپلز پارٹی کا کارکن کبھی نہیں رہا ، مگر آج جب پی پی پی اور آصف علی زردرای کے حق میں قلم اٹھاتا ہوں تو اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ جو کام سندھ کے بڑے بڑے قوم پرست نہ کرسکے وہ آصف علی زردای اور پی پی پی نے اٹھارویں ترمیم کے زریعے کردیا، اس کے لئے کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نھیں یہ وقت ثابت کریگا کے اس ترمیم سے سندھ کو کتنا تحفظ اور فائدھ حاصل ھوا ھے ، سندھی کی قوم پرستی مفاد پرستی میں تبدیل ہوچکی ہے، الیکشن قریب ہیں اور دیکھنا یہ ہوگا کہ سندھ کے قوم پرست سندھی وزیر اعظم بلاول بھٹو زرداری کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں یا پھر سندھ دشمن جماعتوں کے آلہ کاربنے رھینگے ؟ رہی بات پنجاب میں فنڈز لگانے کی تو پڑھے لکھے نام نہاد دانشوروں کو علم ہونا چاہیے کہ 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے بعد صوبوں کے پاس کئی محکموں سمیت اربوں روپے کی خطیر رقم منتقل ہوتی ہے اور کوئی صوبہ ترقیاتی کاموں کے لیے دوسرے صوبے کا محتاج نہیں، سندھ کے نام نھاد قوم پرستوں ،ادیبوں کو چاییے کہ سندھی کی وحدت، سندھ کی ترقی اور سندھ کے امن کے لیے کوششیں کریں تاکہ یہاں بیرونی سرمایہ کاری آئے، قوم پرست اپنی زمینوں پر یونیورسٹیاں قائم کریں تاکہ علم کے دروازے کھلیں اور سندھی نوجوان ایک بار پھر اپنا شانداد ماضی واپس لوٹانے میں اپنا کرداد ادا کرسکے۔بجائے کسی کی راء اور تجویز کو بھانہ بنا کے اپنے اندر کی آگ کو بھڑکائیں ،اور اس میں ھی اپنے آپکو جلاتے رھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں