حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انسانیت پر سب سے بڑا احسان اور ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ظلم کے نظام کو قبول کرنے کی بجائے اس کو بدلنے کا فیصلہ کیا اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خاندان کے 72نفوس قدسیہ کی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے انسانیت کو یہ درس دیا کہ باطل کے نظام کو قبول کرلیناکسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا ۔ تاریخ انسانی پر نظر ڈالی جائے تو ظلم وجبر کی قوتوں کے سامنے پہاڑ کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہونے اور اپنی جان پر کھیل جانے کے واقعات توبے شمار ملتے ہیں،لیکن کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں ملتا کہ بندگان خدا اوراہل وفا نے کبھی یہ سوچ کر ظلم کو گوارہ کیا ہو کہ وہ تعداد میں تھوڑے ہیں یا ان کے پاس وسائل نہیں ہیں ،لوگوں نے خود کو ظلم سے بچانے کیلئے شجاعت و جاں بازی کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں جو بلاشبہ انسانی تاریخ کا سرمایہ ہیں مگر ان عظیم داستانوں کے مقابلے میں جب ہم نواسہ ¿ رسول ﷺ،جگر گوشہ ¿ بتول ؓ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی اور داستان عزیمت کو دیکھتے ہیں تو انسان خود پکار اٹھتا ہے کہ غلبہ ¿ دین اور اعلائے کلمتہ الحق کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی قربانی نہیں ہوسکتی ۔حضرت امام حسین ؓ نے یزید کی اطاعت قبول کرنے سے اپنی اور اپنے خانوادہ کے معصوم بچوں تک کی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا اور حق کیلئے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کی وہ مثال قائم کی جو تاقیامت حق پرستوں کے لئے نشان منزل کے طور پر یاد رکھی جائے گی ۔
شاہ است حسین ، بادشاہ ہست حسین
دین است حسین ، دیں پناہ است حسین
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنا لا الہ است حسین
محرم الحرام وہ مقدس ماہ مبارک ہے جو ہمیں حضرت امام حسین ؓکی اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے، محرم کی شدید گرمی اور دشت کربلا کی تپتی ریت پر 72 افراد نے اپنے مقدس خون سے یہ تاریخ لکھی تھی کہ ہم کٹ تو سکتے ہیں مگر باطل کی خدائی کو تسلیم نہیں کرسکتے ۔ ایک ایک نے حق کی گواہی دی اور شہادت کا جام نوش کرگئے ۔یزیدی حکومت اورجبر کے نظام کو قبول نہیں کیا ۔ ہم بھی انہی کے پیروکار اور ماننے والے ہیں۔ہمیں بھی اما م عالی مقام حضرت حسین ؓ کی پیروی میں باطل نظام کے ساتھ ٹکرانا ہے ۔انہوں نے بغاوت کیوں کی ؟ ،کیوں انہوں نے یزید کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ؟وہ کیا مقصد تھا جس کے لئے انہوں نے اپنے خاندان اور بچوں تک کو قربان کر دیا؟۔اس لئے کہ یزید کی حکومت جائز حکومت نہیں تھی ۔ یزید کی حکومت اللہ کی باغی حکومت تھی ۔یزید نے خلافت کو ختم اور ملوکیت کو مسلط کیا تھا۔ہم اس لئے موجودہ نظام کے خلاف کھڑے ہیں کہ یہ یزیدی نظام ہے ۔یزید اللہ کے حکم کی بجائے اپنا حکم چلاتا رہا اور لوگوں کو بزور شمشیر اپنی اطاعت پر مجبور کرتا رہا ۔ہماری حکومتیں بھی اللہ کے نظام کی باغی حکومتیں ہیں ،یہ عشر و زکواة کے پاکیزہ نظام کے بجائے سود کے نظام کی محافظ حکومتیں ہیں ۔قرآن ایسی حکومت کے خلاف جدوجہد کا حکم دیتا ہے اور یہی درس ہے کربلا کا جس کی ریت کو اہل بیت رضوان اللہ علیہم نے اپنے پاکیزہ خون سے تر کرکے حق کی گواہی دی تھی ۔ آج ہمیں بھی اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا کہ کیا ہم حق کے ساتھ کھڑے ہیں یا باطل قوتوں کے ساتھی ہیں ۔
اسلام دین فطرت ہے اور اس کا تقاضاہے کہ اسے زندگی کے تمام شعبوں پر مکمل حاکمیت حاصل ہو اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ” اسلام کے اندر پورے کے پورے داخل ہو جاﺅ“ اس سے مراد صرف عبادات ہی نہیں زندگی کے تمام معاملات ہیں ۔ اسی طرح دین اسلام کی ہمہ گیری کا تقاضا ہے کہ امت ایک جسد واحد کی حیثیت سے متحد و متفق رہے ۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی مثال دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ” مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں اگر جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہوتو پورا جسم بے قرار ہوجاتاہے ۔“ اس امت کا یہ فرض قرار پایا ہے کہ وہ خود بھی نیکی کے راستے کو اختیار
کرے ،دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کرے اور برائی سے روکے لیکن امت اپنا یہ فرض اسی وقت ادا کرسکتی ہے جب وہ حضرت امام حسین ؓکی شہادت کے پیغام کو اپنے لئے مشعل راہ بنالے ۔حضرت امام حسین ؓ نے شہادت کو گلے لگایا مگر باطل کے نظام کو قبول نہیں کیا ۔لیکن امت حضرت امام حسین ؓ کی نظام باطل کے خلاف اتنی عظیم الشان قربانی کو فراموش کرکے آپس میں دست و گریبان ہوگئی ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تفرقہ بازی سے روکا تھا مگر افسوس امت کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں کی پہچان ایک امت کی حیثیت سے قائم رہی، بڑی سے بڑی قوت بھی ان پر غلبہ نہ پاسکی ۔ ایران اور روم کی سپر طاقتوں کی تسخیر کے بعد مسلمان زمین کے کونے کونے میں پھیل گئے اور جس نے بھی اس سیل رواں کا راستہ روکنے کی کوشش کی ،وہ اس کے آگے خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا ۔اسلام دشمن قوتیں اس پہاڑ سے سر ٹکراتی اور اپنا سر پھوڑتی رہیں لیکن ہر جگہ انہیں ناکامی و نامرادی کا سامنا کرنا پڑا اوروہ اسلام کو مغلوب کرنے اور مسلمانوں کو زیر کرنے کی حسرت دل میں لئے دنیا کے نقشے سے مٹ گئیں ۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی سے عالم اسلام کے اندر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے ،یہ امت کے اتحاد کی طرف بہت بڑا قدم ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے فیوض و برکات سمیٹنے اور عالم اسلام کے ان انتہائی اہم ممالک کے درمیان مزید محبت اورالفت پیدا کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے ۔
آج بلاشبہ امت پر وہ وقت آیا ہے کہ جس کا ذکر خود رسول اللہ ﷺ نے صحابہ ؓ کرام سے کیا کہ میری امت پر ایک ایسا دور آئےگا جب اسلام دشمن قوتیں اس پراس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے دستر خوان پرٹوٹ پڑتے ہیں ۔بلاشبہ وہ دور آچکا ہے ۔امت کے اندر پائے جانے والے افتراق و انتشار نے وہ دن دکھائے ہیں کہ پونے دو ارب سے زائد کی تعدادمیں ہونے کے باوجود مسلمان تنکوں کی طرح بکھر ے ہوئے ہیں اور کفار ان پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ پورا کفر متحد ہوکر ہم پر چڑھ دوڑا ہے اورہر جگہ گدھوں کی طرح ہمارے جسم کو نوچ رہا ہے ،حضور ﷺ کی ذات اقدس کے خاکے بنائے گئے ، قرآن عظیم الشان کو نذر آتش کیا جارہا ہے اور یہ واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ ہر جگہ مسلمانوں کے لاشے تڑپ رہے ہیں ،بستیوں کی بستیاں خاک کا ڈھیر بنا دی گئی ہیں ۔عورتوں اور معصوم بچوں تک کو نہیں چھوڑا گیااور ہرجگہ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ۔نصف صدی سے زائد عرصہ سے ہمارا قبلہ اول یہودیوں کے قبضہ میں ہے ،اسرائیل اور بھارت نے فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں کوغلام بنا رکھا ہے ۔ یہود و ہنودانہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے اور مسلمان حکمرانوں سمیت کوئی ان کی فریاد سننے اور داد رسی کرنے والانہیں ۔جبکہ مشرقی تیمور ،سوڈان ،الجزائراور برما میں ملت کفر کی سازشیں پوری طرح کامیاب ہوئی ہیںاور مسلم اکثریتی علاقوں کو اقلیتوں کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ملت کے خلاف جہاں دنیا بھر کا کفر متحد ہے وہاں عالم اسلام کے حکمران بھی الا ماشاءاللہ اسی کے پیروکار ہیں ،اسی کی دہلیز پر سجدہ ریز اسی کے آلہ کار اوراسی کے اشاروں پر ناچنے والے ہیں اور انہیں مسلمانوں کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے کوئی غرض نہیں ،بلکہ ان مصیبتوں اور پریشانیوں کا اصل سبب ہی مغرب کے غلام یہ حکمران ہیں۔
موجودہ حالات میںضروری ہے کہ اسوہ ¿ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنایا جائے ،حق و باطل کے جاری معرکے میں حق کے ساتھ کھڑے ہوکر درس کربلا پر عمل کیا جائے ،اتحاد امت اور قومی یکجہتی کیلئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں مل بیٹھ کرملک کی سا لمیت اور بحرانوں سے نجات کیلئے قومی لائحہ عمل بنائیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی مثبت اور تعمیر ی اقدام ہوگا۔اس کا مقصد امت کے وسیع تر اور ہمہ گیر اتحاد کیلئے لائحہ عمل تیار کرنابھی ہو اور امت کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ اسلام کی روشن تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کے ذریعے کفر کے اندھیروںکو کم کرنے کی کوشش کرنا ہو
بتانِ رنگ و بو کو توڑ کرملت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی
