مظہر برلاس

سفر جاری ہے

چند ہفتے پہلے میں نے جاپانی پولیس اور وی آئی پی کلچر کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا، اس کالم پر دنیا بھر سے تبصرے پڑھنے کو ملے۔ میرے لئے خوشی کے دو پہلو تھے، ایک یہ کہ اردو پڑھنے والے کم و بیش دنیا کے ہر ملک میں بستے ہیں، دوسری پسندیدہ بات یہ تھی کہ بیرونی دنیا میں بسنے والے اکثر پاکستانی اپنے پیارے وطن سے متعلق متفکر ہیں۔ تبصروں میں ایک تبصرہ ٹیلی ویژن کے مایہ ناز ڈرامہ پروڈیوسر سجاد احمد کا تھا۔ سجاد احمد لکھتے ہیں کہ “میں نے 1994ء میں سرکاری ٹی وی کے کوئٹہ سنٹر سے ڈرامہ سیریل دھواں پیش کی تھی۔ اس ڈرامے کا مقصد پولیس فورس کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ بہت سے پولیس افسران نے اس ڈرامے کو مثبت لیا اور پولیس کو بہتر بنانے کے لئے چند فیصلے کیئے تاکہ پولیس لوگوں کی محافظ نظر آئے”۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سجاد احمد کا ڈرامہ بہت شاندار تھا مگر اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ زمانہ بدل گیا مگر ہماری پولیس نہیں بدلی بلکہ حالیہ چند مہینوں میں پولیس کی ایسی گھناؤنی وارداتیں سامنے آئی ہیں جو وحشت اور انسانی حقوق کی پامالی کی عکاس ہیں۔ کچھ دنوں سے پنجاب پولیس کے چند “شیر جوانوں” کی کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں، ان ویڈیوز میں پولیس اہلکار کہیں غل غپاڑہ کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں زیادتیاں ان کی حرکتوں سے بولتی ہیں، اس پر رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو “شاباش” دینی چاہئیے۔انہوں نے حقائق پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک پولیس اہلکار کو پاگل قرار دے دیا، ڈاکٹر عثمان انور باقی اہلکاروں کا کیا کریں گے؟ انہیں کسی ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہئیے بلکہ میں اپنے عظیم دوست خلیل الرحمٰن قمر سے درخواست کروں گا کہ وہ ڈاکٹر عثمان انور کے لئے کوئی یادگاری کردار لکھیں کیونکہ میں تو ان کی ایکٹنگ سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں ڈراموں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں اپنی پولیس کا موازنہ جاپانی پولیس سے کیسے کروں کہ جاپان دیانتداری میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ میرے ملک میں دیانتداری نہ دوربین سے نظر آتی ہے نہ خوردبین سے۔ جاپان میں پچھلے 32 سال سے کوئی چوری نہیں ہوئی، یہ جاپانیوں کا اعلیٰ کردار ہے مگر ہمارے ہاں پولیس جرائم کی پشت پناہی کرتی ہے، مجرم پولیس والوں کے ساتھی بن جاتے ہیں، پولیس ظالموں کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے اور مظلوموں پر ظلم کرتی ہے۔ جاپان میں تو کوئی 30 برسوں سے قتل نہیں ہوا مگر ہمارے ہاں کئی اندھے قتل ہوتے ہیں، کئی قتلوں پر مٹی ڈال دی جاتی ہے، کچھ کی تفتیش کا رخ بدل دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو جس تھانے کی حدود میں قتل ہو جائے، تھانے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ کبھی قاتل سے مال بٹورا جاتا ہے، کبھی مقتول کے ورثاء کو رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہاں پولیس قبضے کرواتی ہے، جعلی پولیس مقابلوں کو رواج دینے میں ایک بڑے سیاسی خاندان کا نمایاں کردار ماضی کا حصہ ہے، جو پولیس افسر اس خاندان کے کہنے پر ماورائے عدالت قتل کرتے رہے، انہیں ترقیاں دی گئیں، ریٹائرڈ ہونے کے بعد بڑے سیاسی عہدوں پر مسلط کر دیا گیا۔اس سلسلے میں پنجاب کے دکھ بہت گہرے ہیں۔ پنجاب میں تیس پینتیس برس پہلے آوارہ لڑکوں کو سیاسی بنیادوں پر اے ایس آئی بھرتی کیا گیا تھا جو بہت جلد ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ڈی پی او بن گئے اور کچھ تو ڈی آئی جی بننے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ اسی طرح بہت سے نالائقوں کو سیاسی بنیادوں پر نائب تحصیلدار بھرتی کیا گیا تھا، وہ بھی ترقی کی چھلانگیں لگاتے ہوئے ڈی سی اور کمشنر تک جا پہنچے، ان لوگوں نے ملک میں کرپشن کو رواج دیا۔ ایسی فصلیں بونے والے سیاسی خانوادے کو بار بار پارسائی کے سرٹیفکیٹ دیئے گئے حالانکہ انہوں نے اس ملک میں بے دردی سے لوٹ مار کی۔ شاید اسی لئے ہمارا ملک دیانتداری میں 160 نمبر پر آتا ہے۔ جاپان میں کوئی بھوکا نہیں سوتا مگر ہمارے ہاں بھوک مٹانے کے لئے لوگ خود کشیوں کا رزق بن جاتے ہیں۔ یہاں کے حکمرانوں نے ملک کو کنگال کر دیا ہے۔ پاکستان میں کتنے قرضے ہڑپ کیئے گئے، کوئی حساب نہیں۔ جس ملک میں لوٹ مار کرنے والوں کے لئے نئے قوانین بنائے جائیں وہاں کیا ہو سکتا ہے؟ جس ملک میں منی لانڈرنگ میں فرد جرم عائد ہونے والوں کو وزیراعظم بنا دیا جائے وہاں کس کے سامنے رویا جائے؟ جہاں عدالتوں میں اداروں کے نمائندے پیش ہو کر مجرموں کی بے گناہی ثابت کرنے پر تل جائیں وہاں کیا ہو سکتا ہے؟ حال ہی میں ختم ہونے والی 16 ماہ کی حکومت ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھا گئی، مہنگائی میں اتنا اضافہ کر گئی کہ لوگوں کا کچومر نکل گیا۔ مہنگائی، بد انتظامی اور بد طرزِ حکمرانی ہنوز جاری ہے۔ پتہ نہیں مہنگائی، بےروزگاری اور غربت کا سفر کب ختم ہو گا۔ یہ بھی نہیں پتہ کہ ظلم، ناانصافی، بے حسی اور وحشت کا سفر کب ختم ہو گا۔ منیر نیازی یاد آتے ہیں اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

اپنا تبصرہ بھیجیں