مظہر برلاس

امن کے دروازے پر بڑی جنگ

غزہ پر حالیہ بمباری اور اس کے بعد جھوٹے پروپیگنڈے کو دیکھ کر ہٹلر کے جملے یاد آتے ہیں۔ جرمنی کے جنگجو ہٹلر، یہودیوں سے متعلق کہتے ہیں کہ’’میں دنیا کے تمام یہودیوں کو قتل کر سکتا تھا لیکن میں نے ان میں سے کچھ کو زندہ چھوڑ دیا ہے تاکہ میرے بعد لوگوں کو پتہ چل سکے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھا۔‘‘ فاتحین بڑے بڑے کام کرتے ہیں، ہٹلر نے بھی بڑے بڑے کام کیے، اس نے یہودیوں کا صفایا کیا مگر وہ جو چند یہودی چھوڑے تھے آج انہی یہودیوں نے دنیا کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے۔ دنیا کے امن پسند لوگ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں پر افسردہ ہیں، بربادی کے مناظر نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ہر مکتب فکر کو پریشان کر دینے والے حالات نے شاعری میں دکھ اتار دیا ہے۔ راشد محمود لنگڑیال اگرچہ وفاقی سیکرٹری ہیں مگر خوبصورت شاعر ہیں، انہوں نے غزہ کے بہادر سپوتوں کی یاد میں ایک نظم’’اہل غزہ کا ارادہ‘‘ سپرد قرطاس کی ہے۔
کبھی تم نے دیکھی ہیں
نسلوں کی نسلیں
جو ہجرت کے خیموں میں پلتی رہیں
کبھی ایسی بستی میں بھی تم رہے ہو
کہ چاروں طرف
عدو کا ہی پہرہ ہمیشہ رہا ہو
کبھی تم نے ڈھالا ہے
آب ِ ندامت کو
آبا کے غم کو
تیر و کماں میں
یا طوق و سلاسل کی دلہن بنے ہو ؟
گر ایسا نہیں ہے تو سمجھو گے کیا تم
کہ اہلِ غَزہ کا
ارادہ ہی کیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے حالیہ واقعات نے دنیا کو تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طرف ظالم کی حمایت کرنے جبکہ دوسری طرف مظلوموں کے حامی شاعری کر رہے ہیں، احتجاجی جلوس نکال رہے ہیں، دعائیہ کلمات ادا کر رہے ہیں، بعض ملکوں میں احتجاج بھی مشکل ہو گیا ہے۔ پاک فوج کے حالیہ کور کمانڈرز اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم فلسطینیوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتے ہیں مگر حیرت ہے نگرانوں پر کہ لاہور میں ایک خاتون جب فلسطین کی حمایت میں نعرہ بلند کرتی ہے تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ نگران، پی ٹی آئی کو احتجاج نہیں کرنے دیتے مگر ان کی اپنی ایک چہیتی پارٹی کے جلوس میں دو روز پہلے فلسطین مردہ باد کے نعرے لگائے گئے، افسوس صد افسوس کہ نگران چپ رہے۔ ہمیں 75 سال سے مختلف حکومتوں کے ادوار میں یہ پڑھایا جاتا رہا کہ فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور 58 مسلمان ممالک آزاد ہیں مگر اب حالات نے گواہی دی ہے کہ صرف ایک آدھ ملک اور فلسطینی آزاد ہیں، باقی اسلامی ملکوں پر یہودی لابی حاوی ہے بلکہ ایک طرح سے ان ممالک پر یہودیوں کا قبضہ ہے کہ وہ یہودیوں کی منشا کے خلاف فیصلے نہیں کر سکتے خواہ وہ 40 اسلامی ملکوں کی متحدہ فوج ہی کیوں نہ ہو، خواہ وہ OIC ہی کیوں نہ ہو۔ جنگی صورتحال کا ادراک رکھنے والے ایران نے امام رضا رحمتہ اللہ علیہ کے روضے پر ایک بڑا سیاہ پرچم لہرا دیا ہے، جس پر لکھا ہے’’نصر من اللہ وفتح قریب‘‘، اس کا مطلب ہے کہ ایران کو پھیلتی ہوئی جنگ کے واضح اشارے نظر آ رہے ہیں۔ وہ جو ظلم دیکھ کر امن کے گیت گاتے تھے، وہ جو جبر و ستم کو اپنی حفاظت کا نام دیتے تھے، وہ جو انسانی حقوق کے چیمپئن تھے، حالیہ واقعات میں ان کے سارے روپ بے نقاب ہو گئے ہیں۔ ہم بھی کہتے ہیں امن ہونا چاہیے مگر یہ بات یاد رکھیے کہ امریکا، دنیا میں جنگیں کرواتا ہے، یہ اس کا کاروبار ہے۔ اسرائیل نے اپنے قیام سے لے کر آج تک جنگ بندی نہیں کی بلکہ اس دوران اس نے عربوں کی زمینوں پر قبضہ کیا، عرب ممالک کمزور ہوتے گئے اور اسرائیل مضبوط ہوتا گیا۔ پچھلی صدی میں طویل اور خوفناک جنگیں جاپان، جرمنی اور کوریا نے لڑی ہیں۔ حیرت ہے کہ یہ تین ملک ترقی کے راستے میں ان ملکوں سے کہیں آگے نکل گئے جنہوں نے جنگوں سے گریز کیا۔ مسلمان پہلی 12 صدیوں میں مسلسل جنگوں میں مصروف رہے، وہ اللہ کے حکم سے جہاد کرتے رہے، اس وقت یہی مسلمان سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور شمار ہوتےتھے۔ گزشتہ دو صدیوں سے مسلمان جنگوں سے گریزاں ہیں ، بزدلی کا سبق پڑھ رہے ہیں ، جہاد سے دور ہیں ، اسی لئے مسلمان نہ صرف غربت کا شکار ہوئے بلکہ ترقی کی دوڑ میں بھی پیچھے رہ گئے۔ اس سلسلے میں مسلمان ملکوں کی حکومتیں قصور وار ہیں۔ انہوں نے برس ہا برس سے غلامانہ سوچ کا مظاہرہ کیا ہے، انہیں اپنی جانوں، مفادات اور عزتوں سے اتنا پیار ہے کہ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی
ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس
جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ
اہل مغرب کی سوچ کا اندازہ ایک مجسمے سے ہوتا ہے، یہ مجسمہ سپین کے شہر میڈرڈ کے عجائب گھر میں ہے، اسے یہودی، عیسائی، مسلمان، مجسمہ کہا جاتا ہے۔ اس مجسمے میں مسلمان سجدہ ریز ہے، اس پر ایک عیسائی بیٹھا ہوا ہے اور اس عیسائی کے کندھوں پر پاؤں رکھ کے یہودی کھڑا ہے۔ مغرب کی اس سوچ کے باوجود یہودیوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر یہ مسلمان کھڑا ہو گیا تو ہم دونوں گر جائیں گے۔ وقت آ گیا ہے اب ہمیں کھڑا ہو جانا چاہئے۔ اب ہمیں کسی کے جدید ترین اسلحے کی پروا بھی نہیں کرنی چاہئے کہ ہمیں ہمارے مفکر نے شعری زبان میں درس دیا ہے کہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اپنا تبصرہ بھیجیں