پاکستان کو درپیش معاشی بحران کی شدت کم کرنے کیلئے مقتدر حلقوں کی جانب سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو بہتر بنانے اور اسمگلنگ روکنے کیلئے جو اقدامات کئے گئے ہیں ان سے حالات میں معمولی بہتری آئی ہے۔ تاہم اس وقت ہمیں جو اصل چیلنج درپیش ہے وہ برآمدات میں مسلسل کمی ہے۔ محکمہ شماریات کی جانب سے جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال میں اگست کے دوران ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات 1455.226ملین ڈالرز رہیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی مہینے یعنی اگست 2022ء کے دوران 1575.816ملین ڈالر تھیں۔ اس طرح ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں مجموعی طور پر 7.65 فیصد کمی واقع ہوئی ۔ اس عرصے کے دوران خام کپاس کی برآمدات میں 43.56فیصد، نٹ وئیر میں 10.80فیصد،ریڈیمیڈگارمنٹس میں 13.94فیصد، میڈاپس میں 2.64فیصد، بیڈ وئیر میں 2.38فیصد، ٹاولز میں 15.97فیصد، ٹینٹس اور کینوس میں 10.31فیصد اور کاٹن کلاتھ کی برآمدات میں 18.12فیصد کمی آئی ۔ علاوہ ازیں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ سیکٹر میں گزشتہ گیارہ مہینوں میں 9.87فیصد کمی آئی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برآمدات میں کمی کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے جس کی وجہ سے ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دباو برقرار ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے باوجود معیشت میں کوئی ٹھوس بہتری نظر نہیں آ رہی ۔ یہ صورتحال اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ اگر ہم نے برآمدات بڑھانے کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو معاشی بہتری کیلئے کی جانے والی دیگر کوششیں بھی ثمرآور ثابت نہیں ہو سکیں گی۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ان مسائل کی نشاندہی کر کے انہیں حل کرنے کیلئے جلد از جلد عملی اقدامات شروع کئے جائیں۔ برآمدات میں کمی کی نمایاں وجوہات میں خام مال اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ، معاشی و سیاسی عدم استحکام اور عالمی کساد بازاری شامل ہیں۔
برآمدات میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ کپاس کی پیداوار میں اضافہ کرکے خام مال کی مستقل بنیادوں پر فراہمی یقینی بنائی جائے۔ علاوہ ازیں برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں 30 سے 40فیصد حصہ توانائی کا ہے۔ اس لئے ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے بجلی اور گیس کے نرخوں کو دیگر حریف ممالک کے مطابق رکھنا ضروری ہے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز نے 22-2020ء کے عرصے میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم 55فیصد اضافے کے ساتھ 19.5ارب ڈالر تک لے جا کر یہ ثابت کیا ہے کہ اس سیکٹر میں اتنا پوٹینشل موجود ہے کہ اگر اس پر خصوصی توجہ دی جائے تو پاکستان کی برآمدات میں فوری اضافہ ممکن ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہئے کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے انرجی کا ٹیرف الگ کرے تاکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی بدانتظامی سے ہونے والے لائن لاسز اور بجلی چوری کا اضافی بوجھ برآمدی صنعتوں کو برداشت نہ کرنا پڑے اور وہ عالمی منڈی میں دیگر حریف ممالک سے مسابقت برقرار رکھ سکیں۔ ایکسپورٹ انڈسٹری کا دوسرا بڑا مسئلہ واجب الاادا ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر ہے جس کی وجہ سے اربوں روپے حکومت کی طرف واجب الاادا ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہئے کہ ریفنڈز کی وقت پر ادائیگی کیلئے بنائے گئے خود کار نظام ’’فاسٹر‘‘کو فعال کرے تاکہ ایکسپورٹرز کو 72گھنٹوں میں ریفنڈز کی ادائیگی ممکن ہو اور وہ اس سرمائے کو دوبارہ پیداواری عمل میں شامل کر کے برآمدات میں اضافے کا ہدف حاصل کر سکیں۔ ماضی میں ان مسائل کو دیکھتے ہوئے ایکسپورٹ انڈسٹری کو’’زیرو ریٹ‘‘ قرار دے کر سیلز ٹیکس کی کٹوتی اور پھر ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر جیسے مسائل کو مستقل طور پر ختم کر دیا گیا تھا لیکن جب سے یہ سہولت ختم کرکے ایکسپورٹ انڈسٹری پر دوبارہ سے سیلز ٹیکس نافذ کیا گیا ہے ایکسپورٹرز کی تمام تر توانائی اپنے ہی ادا کئے ہوئے پیسوں کی واپسی پر ضائع ہو رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو کمرشل اور گھریلو صارفین کیلئے بھی بجلی کی قیمت کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کی آمدنی کا بڑا حصہ بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی جیب میں جانے کی بجائے معاشی سرگرمیوں میں اضافے کا باعث بن سکے۔ بجلی کی قیمتوں میں گزشتہ پانچ سال کے دوران اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2018ء میں بجلی کی فی یونٹ اوسط قیمت11.72 روپے تھی جو تحریک انصاف کے دور میں بڑھا کر 18 روپے کر دی گئی۔ بعدازاں پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنے 16ماہ کے اقتدار میں بجلی کی قیمت میں چار مرتبہ اضافہ کیا جس سے بجلی کی فی یونٹ اوسط قیمت 50روپے سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کئے جانے والے ٹیکسز یعنی الیکٹرسٹی ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، فنانشل کاسٹ سرچارج، میٹر رینٹ، ٹی وی ٹیکس، ایکسٹرا ٹیکس اور دیگر ٹیکسز ختم کئے جانے چاہئیں تاکہ شہری اپنی آمدنی کو دیگر پیداواری مقاصد پر خرچ کر سکیں۔
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ 1995ء سے 2020ء کے عرصے میں جن آئی پی پیز سے بجلی کی پیداوار کے معاہدے کئے گئے تھے۔ ان میں سے اکثر معاہدوں کی مدت رواں سال یا اگلے سال میں ختم ہونے والی ہے۔ ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ ان کمپنیوں کے ساتھ پرانی شرائط پر معاہدوں کی تجدید کرنے کی بجائے ان کمپنیوں سے ڈالر کی بجائے روپے میں منافع کی ادائیگی، درآمدی فیول کی بجائے تھر کول کے استعمال اور کیپسٹی سرچارج کی بجائے صرف خریدی گئی بجلی کی ادائیگی کی شرط پر نئے معاہدے کرے۔ اس سے ناصرف صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے گی بلکہ حکومت کو بھی آئی پی پیز کو کی جانے والی اضافی ادائیگیوں کے بوجھ سے نجات مل جائے گی۔
